ایران اور امریکا کے درمیان جوہری تنازعے کے حل کے لیے گذشتہ سال طے شدہ جوہری معاہدے کے بعد بھی تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور اب دونوں ملکوں کی عدالتوں اور پارلیمانوں میں دوطرفہ سرد جنگ جاری ہے۔
ایرانی پارلیمان ے منگل کے روز ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت صدر حسن روحانی کی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ امریکا سے گذشتہ تریسٹھ سال کے دوران مخالفانہ اقدامات اور جرائم پر ہرجانے کا مطالبہ کرے۔
اس قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے:'' یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ امریکا سے پہنچنے والے مادی اور اخلاقی نقصانات کے ازالے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور اس سے اس ہرجانے کا تقاضا کرے''۔
اس میں ایران کے قوم پرست رہ نما محمد مصدق کا 1953 میں تختہ الٹنے اور 1980-88 کی ایران،عراق جنگ ،خلیج میں تیل پلیٹ فارمز کی تباہی اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف جاسوسی کی کارروائیوں پر ''مادی یا اخلاقی نقصان'' کا حوالہ دیا گیا ہے۔
پارلیمان نے امریکا سے ہرجانے کے طور پر طلب کی جانے والی رقم متعیّن نہیں کی ہے لیکن ایران کے نائب صدر ماجد انصاری نے ایوان میں بحث کے دوران کہا کہ ''ایرانی عدالتیں پہلے ہی یہ قرار دے چکی ہیں کہ امریکا کو مخالفانہ اقدامات پر ہرجانے کے طور پر پچاس ارب ڈالرز ادا کرنا ہوں گے''۔
ایران کی سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے اس قانون کی امریکی سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے ایک فیصلے کے ردعمل میں منظوری دی ہے۔امریکی عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قراردیا تھا کہ انتظامیہ ایران کے مرکزی بنک کے منجمد شدہ دو ارب ڈالرز کے اثاثوں کو دہشت گردی میں مرنے والے افراد کے خاندانوں اور اس سے متاثرہ افراد میں تقسیم کرے۔
یہ افراد 1983ء میں بیروت میں امریکی میرین کی بیرکوں میں بم دھماکے اور 1996ء میں سعودی عرب میں الخبر ٹاور میں بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔امریکا نے ایران پر ان بم دھماکوں میں ملوّث ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔امریکی عدالت کے فیصلے کے تحت ایک سو متاثرہ خاندانوں میں ایران کے منجمد اثاثے تقسیم کیے جانے چاہییں۔
تاہم ایران اپنے ان اثاثوں کی بازیابی کے لیے کوشاں ہے اور صدر حسن روحانی نے 10 مئی کو جنوب مشرقی شہر کرمان میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ایران امریکا سے اپنے منجمد اثاثے واپس لینے کے لیے عالمی سطح پر قانونی چارہ جوئی پر غور کررہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم امریکا کو آسانی سے یہ رقم ہڑپ نہیں کرنے دیں گے۔
واضح رہے کہ ایران کے یہ فنڈز نیویارک میں منجمد کیے گئے تھے اور امریکا گذشتہ سال جولائی میں طے پائے جوہری معاہدے کے تحت ان کو غیرمنجمد کرنے کا پابند ہے۔ایرانی حکام کو شکایت ہے کہ امریکا نےا س معاہدے کے باوجود ابھی تک ایران مخالف پالیسی اختیار کررکھی ہے اور وہ ان کے ہاں غیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے بجائے اس میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔