سلام سمیت تمام آسمانی ادیان اور دیگر مکاتب فکر میں پردے کے بارے میں خاص اہتمام دکھائی دیتا ہے۔ پردہ انسانی روح ، فطرت اور اخلاقی اقدار کےعین مطابق ہے۔ اسلام سے پہلے بھی پردے کا رواج تھا۔ پردہ اسلام کا حصہ ہی نہیں بلکہ تمام آسمانی ادیان اور مکاتب فکر کا حصہ تھا ، ہے اور رہے گا۔ اس بات کا اظہار معروف عالم دین، حرم مطہر حضرت معصومہ (س) میں مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر و مہر نیوز ایجنسی اردو کے ایڈیٹر حجۃ الاسلام و المسلمین سید ذاکر حسین جعفری نے اپنے ایک بیان میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بعض انتہا پسند اور شدت پسند ہندو تنظیمیں ہندو ازم کی آڑ میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے اور انھیں پریشان و ہراساں کرنے کی سر توڑ کوشش کررہی ہیں۔ ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے کبھی مسجدوں اور مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کبھی پردے پر پابندی عائد کرکے مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ پردہ و حجاب تمام ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر مکاتب فکر کی خواتین کی زینت اور ان کے تحفظ کا ضامن ہے۔ آج بھی مذہبی مقامات پر تمام مذاہب کی خواتین کا با پردہ ہوکر اور سر ڈھانپ کر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پردہ تمام ادیان کا بنیادی جزو ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے غیر قانونی اور غیر آئينی اقدامات پر ہندوستان کے ذمہ داروں کی خاموشی پر دنیا محو حیرت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندو انتہا پسندوں نے مذہب کی آڑ میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ بے رحمی کا برتاؤ، تعصب اور طعنہ زنی کرکے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو پارہ پارہ کردیا ہے ۔ ہندوستان کی نئی نسل میں تعصب، نفرت اور کدورت کا زہر پھیلایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے نفرت کی اس آندھی کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آرہا ، بلکہ اہم بات یہ ہے حکومت کے اتحادی جماعتیں اورمنتخب کارندے، وزراء اور گورنمنٹ کے نمائندے بھی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں ، جبکہ ہندوستان میں دیانتدار، ایماندار اور ہندوستان کو ایک گلدستہ کی طرح دیکھنے والا غیر مسلم طبقہ نفرت پر مبنی نظریات کی بھر پور مخالفت کررہا ہے۔ اور بلا لحاظ مذہب و ملت و ذات، علاقہ و زبان سب کی خدمت میں مشغول ہے۔

انکا کہنا تھا کہ کوئی بھی مذہب عداوت ، دشمنی ، برائی ، تشدد، اذيت و آزار پہنچانے ، کرپشن، قتل و غارت، چوری ، ڈکیتی ، گناہ ، دوسرے مذاہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ بلا شبہ ہندو مذہب بھی مذکورہ امور کے خلاف ہے ۔ ہندو مذہب میں بھی محبت ، ہمدردی ، انسان دوستی ، رواداری ، بھائی چارے ، اتحاد و یکجہتی اور دیگر مذاہب کے احترام کا درس موجود ہے۔ اسلام سمیت دیگر آسمانی ادیان بھی محبت، پیار ، دوستی ، رواداری ، امن و صلح اور اتحاد و یکجہتی کا درس دیتے ہیں۔ مرحوم علامہ ڈاکٹر اقبال نے بھی اس طرف خوب اشارہ کیا ہے کہ :

مذہب نہیں سیکھاتا آپس میں بیر رکھنا ، ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو ازم کی آڑ میں آج ملک ہندوستان کی اتحاد و یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو کچھ انتہا پسند ہندو تنظیمیں نقصان پہنچارہی ہیں۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف وہی طاقتیں سرگرم عمل ہیں جو مہاتما گاندھی کے بھی خلاف تھیں اور ہیں، مہاتما گاندھی کے فوٹو پر گولیاں برسا کر بعض انتہا پسند ہندوؤں نے عملی طور پر اپنے آپ کو غیر ملکی ایجنٹ ثابت کیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے انتہا پسند ہندو نتھو رام گوڈسے کے طرفدار، مرید اور حامی ہیں ، آج ہندوستان پر گوڈسے کی ثقافت کو لاگو کرنے کے لئے ہندو انتہا پسند تنظیموں کو اسرائیل ، امریکہ اور برطانیہ کی مدد بھی حاصل ہے۔ ہندوستان میں ہندو شدت پسندی کافی حد تک بڑھ گئي ہے ۔ ان انتہا پسندوں کو ہندو مذہب سے کوئي لگاؤ نہیں بلکہ یہ ہندو مذہب کی آڑ میں مہاتما گاندھی کے نظریات کو ختم کرکے گوڈسے کے نظریات کو ہندوستان میں لاگو کرنا چاہتے ہیں، ایسے شرائط میں ہندوستان کے تمام شہریوں اور مہاتما گاندھی کے تمام حامی ہندوؤں، مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائيوں کو متحد ہوکر غیر ملکی ایجنڈوں پر کام کرنے والے انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک بار پھر ہندوستان کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان دنیا بھر میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگي کے لحاظ سے ایک مثالی ملک تھا اور اسے مثالی رہنا چاہیے۔ ہندوستان کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لئے ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائي اتحاد بہت ضروری ہے۔ ہندوستان کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ” بی جے پی ” کو اقلیتوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف غیرمنصفانہ رویہ ترک کرنا چاہیے۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کے تمام مذہبی اور مقدس مقامات کی حفاظت اور ان کے بنیادی اور آئينی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔ ہندوستانی حکومت کو تمام ہندوستانی شہریوں کو یکساں اور ایک نظر سے دیکھنا چاہیے۔ دنیا میں بہت سےسرکش حکمراں آئے اور چلے گئے ، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال اور آنا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ اچھائی اور نیکی کا نام ہمیشہ باقی اور زندہ رہےگا۔ بھارتی جنتا پارٹی کو بعض مغل حکمرانوں کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں بھارتی جنتا پارٹی کے اقدامات کا سرانجام بھی بعض مغل بادشاہوں کے اقدام جیسا ہی ہوگا۔

آخر میں کہا کہ ہندوستان میں مذہبی رواداری کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان کے تمام مکاتب فکر کے مذہبی رہنماؤں ، دانشوروں ، سیاسی رہنماؤں، سماجی اور ثقافتی شخصیات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔