از۔ افشاں احمد

وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی صبح تیزی سے اپنے کام کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں خان بازار تھا ، جہاں ابھی پوری طرح رونق نہیں ہوئی تھی۔ دوکانیں ابھی کھلنا شروع ہوئی تھیں۔یہیں وہ بس اسٹاپ تھا جہاں سے وہ اپنے دفتر کو جانے کے لئے بس نمبر۱۳ لیا کرتا تھا۔ واپسی میں بھی وہ اسی بس اسٹاپ پر اترتا ، رات کے کھانے کے لئے کچھ چیزیں خریدتا اور گھر پہنچ کر بیوی کو تھما دیتا تھا۔

یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ جس میں شاذو نادر ناغہ ہوتا تھا۔ لیکن آج کام پر جاتے وقت نہ جانے کتنے سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔بیوی کی طرف سے خرچہ کی کمی کا رونا تو دودھ والے کے داموں کی شکایت، بجلی کے بل کی ادئیگی کی فکر ، بچوں کی پڑھائی کا خرچہ۔اس کی کمائی مختصرتھی، لگی بندھی۔لیکن مہنگائی آسمان کو چھو تی جارہی تھی۔ اپنا گزر بسر تو کسی طرح ہوجاتاتھا لیکن بچّے۔۔۔ان کے ستے ہوئے چہرے۔ اس کو اکثر بے چین کر دیتے تھے۔ کاش کوئی لاٹری ہی مل جائے اور وہ بہت سے روپئے لاکر گھر والوں کے سامنے ڈھیر کر دے۔تاکہ ان کی خواہشات پوری ہو جائیں۔وہ روز دعائیں مانگتا۔مگر اس کے پاس ان خوش خیالات کے سوا کچھ نہ تھا۔آج بھی سارا دن کام کرنے کے بعد بھی وہ اپنے افسرکو خوش نہ کر سکا۔ کیونکہ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ آفس سے نکل کر تھکے ہوئے قدموں سے وہ بس اسٹاپ کی طرف بڑھا ۔ اتفاق سے اسے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ بس جلد ہی آگئی اور وہ گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔بس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔ گرمی اور اُمس محسوس ہو رہی تھی۔ موٹے موٹے، دُبلے دُبلے لوگ، جن کے پسینے کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ بار بار جھٹکے لگ رہے تھے۔ کنڈکٹر ٹکٹ چیک کرتا ہوا پاس سے گزرتا تھا۔ لیکن وہ اس سب سے بے نیاز اپنی فکروں میں کھویا ہوا تھا۔

’’خان بازار۔‘‘ کنڈکٹر نے آواز دی۔ اور وہ بس سے اتر گیا۔فٹ پاتھ پر ایک طرف آج بھی ایک ادھیڑ آدمی چھوٹی سی سفید چادر پھیالائے اپنے طوطے کے ساتھ بیٹھا تھا، جسے وہ روز وہاں دیکھتا تھا۔ پاس ہی ایک چھوٹا سا پنجڑا رکھا تھا، جو خالی تھا۔ سامنے لفافوں کی قطار لگی ہوئی تھی اور وہ آدمی اپنے طوطے کو کچھ کھلا رہا تھا۔ساتھ ہی اس کی زبان چل رہی تھی:

’’فال نکلوالو فال۔ طوطا فال نکالے گا بھئی۔ آئیے جناب اپنے نصیب کا حال معلوم کیجئے۔۔۔کیوں مٹھو، بتائو گے نا؟‘‘

یہ آوازیں اس کے لئے نئی نہیں تھیں۔ فال والا ہر روز اسی طرح کی آوازیں لگایا کرتا تھا۔اور وہ دفتر سے واپسی پر کچھ دیر وہاں رک کر اس کی آواز کو سنتا اور کبھی کبھی سوچتا تھا کہ کیوں نا وہ بھی فال نکلوا کر دیکھے کہ اس کے نصیب میں دولت ہے یا نہیں۔مگر اس کی ہمت نہ پڑتی۔

آج نہ جانے کیوں اس کا جی گھر جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ بس اسٹاپ کے قریب ہی ایک چھوٹا سا کھوکا تھا۔ وہ وہیں جاکر بیٹھ گیا اور ایک کپ چائے کا آرڈر دے کر اپنا رُخ فال والے کی طرف کر لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کوئی شخص فال والے کی طرف آتا ہے یا نہیں۔یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اس کے نصیب میں کیا لکھاہے۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے آگئی اور وہ ٹھہر ٹھہر کر چسکیاں لینے لگا۔

شام کی رونق میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ لوگوں کی گہما گہمی بڑھ گئی تھی۔فال والے کی زبان بھی تیزی سے چل رہی تھی۔ اس کا طوطا کبھی اڑ کر پنجڑے پر بیٹھ جاتا، کبھی پھدک کر نیچے آجاتا اور سامنے پڑے ہوئے لفافوں کے سامنے چہل قدمی کرنے لگتا۔کچھ دیر بعد اس کی چائے کی پیالی خالی ہو گئی۔ وہ بے دلی سے اٹھا۔چائے کی قیمت ادا کی اور گھر جانے کے لئے بس اسٹاپ کی طرف جانے کا رادہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے قدم ٹھٹھک گئے۔ فال والے کے پاس ایک نوجوان آکر بیٹھ گیا تھا۔اس نے بھی اپنے قدم تیزی سے فال والے کی طرف بڑھا دئے۔اس کے دل میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ اس نوجوان کی فال میں کیا نکلتا ہے۔

وہ خاموشی سے اس نوجوان کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔نوجوان نے فال والے کو ایک نوٹ تھماتے ہوئے التجا آمیز نظروں سے طوطے کی طرف دیکھا۔فال والے نے اپنے طوطے کو کچھ کھلایا او ر بولا:

’’ہاں میاں مٹھو، صاحب کی فال نکالو۔۔۔بیٹے۔۔۔فال نکالو‘‘۔طوطا اُچک کر لفافوں کے پاس گیا ۔ اور ایک لفافہ اپنی چونچ سے کھینچ کر قطار کے بارہر کر دیا۔اور اپنے پنجڑے پر جا کر بیٹھ گیا۔اور ٹکر ٹکر نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔فال والے نے لفافے کو اٹھایااور اس کی عبارت کو نہایت ہی مسرت سے زور سے پڑھکر سنایا۔

’’بہت جلد ہی تمہیں کوئی خوشخبری ملنے والی ہے۔دولت تمھارے قدم چومے گی۔ تمھارے گھر کی طرف رواں ہے۔‘‘ نوجوان کا چہرہ ک فرط مسرت سے کھِل اٹھا جیسے اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ اچھلتا ہوا بس اسٹاپ کی طرف چلا گیا۔

’کتنا خوش قسمت ہے یہ نوجوان‘۔ اس نے نوجوان کی طرف ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔ ’’ میں بھی کل پیسے لے کر آئوں گا اور فال نکلوائوں گا۔ مگر پیسے آئیں گے کہاں سے؟ شاید کسی دوست یا دفتر کے ساتھی سے ادھار لینا پڑیں گے۔‘‘ ابھی وہ اپنے خیالات میں غرق دو قدم آگے بڑھا ہی تھا، کہ اچانک ایک شور اٹھا۔ بس اسٹاپ کے قریب لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ہر طرف سے لوگ اسی جانب دوڑ رہے تھے۔وہ بھی تیزی سے قریب پہنچ گیا گیا۔۔۔پھر جیسے اس کے دل نے دھڑکنا بند کردیا ہو۔وہی خوش رو، کم سن نوجوان، جو ابھی اپنی فال نکلوا کر آیا تھا زمین پر خون میں لتھ پتھ پڑا تھا۔ ایک آدمی نے بتایا کہ وہ نوجوان سڑک کراس کرتے ہوئے ایک کار سے ٹکرا گیا۔کار والا اسے بے جان پڑا چھوڑ کر بھاگ گیاہے۔

اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا وہ کیا کرے۔ وہ گھبرا کر مجمع سے باہر نکل آیا اور فٹ پاتھ پر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر قبل کا سارا منظر اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ فال والے کی آوازیں : ’’ طوطا فال نکالے گا۔ آئیے جناب اپنے نصیب کا حال معلوم کر لیجئے۔ ہاں میاں مٹھو فال نکالو۔۔۔فال نکالو۔۔۔بہت جلدی تمہیں کوئی خوش خبری ملنے والی ہے۔ دولت تمھارے قدم چومے گی۔ تمھارے گھر کی طرف رواں ہے۔۔۔‘‘ فرط مسرت سے نوجوان کے چہرے کا کھلنا۔ خوشی سے اچھلتے ہوئے بس اسٹاپ کی طرف بڑھنا۔ ۔۔ اور پھر اسے ایسا لگا جیسے دور کہیں سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی ہیں اور بڑھتی جا رہی ہیں، قریب آتی جا رہی ہیں گونج رہی ہیں: ’’اللہ اکبر! اللہ اکبر!‘‘ اور کہہ رہی ہیں:
’’واقعی اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔طوطا بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے۔ اللہ کے بھید اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ پیچھے فٹ پاتھ سے آواز آرہی تھی:
’’طوطا فال نکالے گا بھئی۔۔۔طوطا فال نکالے گا۔۔۔‘‘

(از۔ افشاںاحمد، برلن ، جرمنی)

٭