سماجی اصلاحات کیلئے شریعت کو دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا

ممبئی : بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا خفیہ ایجنڈہ اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے لئے حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے پرسنل لا ء میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاق اور تعدد ازدواج کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ ملک میں آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا ء کے خلاف اتنا جارحانہ رخ اختیار کیا ہے ۔جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق اور تعدد ازدواج کے تعلق سے سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے ذریعے پیش کی گئی رائے ناقابل قبول ہے اور جمعیۃ علما ء ہند اس کی نہ صرف سخت مذمت کرتی ہے بلکہ اسے خارج کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کے لئے قرآن اور حدیث ہی سب سے بڑا دستور ہے اور مذہبی امور میں شریعت ہی قابل تقلید ہے جس میں تا قیامت کوئی ترمیم ممکن نہیں اور سماجی اصلاحات کے نام پر شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ۔ واضح ہو کہ مودی سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’پرسنل لا ء کی بنیاد پر مسلم خواتین کے آئینی حقوق نہیں چھینے جا سکتے اور اس سیکولر ملک میں تین طلاق کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔‘‘
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علما ہند بطورفریق سپریم کورٹ میں اپناموقف واضح کر چکی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی امور قرأن اور حدیث کی بنیاد پر طے ہو تے ہیں اورسماجی اصلاحات کے لئے شریعت کو دوبارہ نہیں لکھا جا سکتا اور نہ ہی رہتی دنیا اس میں کوئی ترمیم ہی ممکن ہے۔ مذہب کے معاملے میں مسلمانوں کے لئے قرأن اور حدیث کے علاوہ اور کوئی دستور نہیں ہے۔ جمعیۃ بطور فریق اس بات کوایک بار پھر سپریم کے سامنے رکھے گی ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت نے اس معاملے میں عوام سے جو رائے عامہ طلب کی ہے تو میں تمام مسلمان مرد و خواتین سے اپیل کروں گا کہ وہ لاء کمیشن کے سامنے اپنی رائے پیش کریں ۔ ہمیں امید ہے کہ 99فی صد مسلمان مردو خواتین شریعت کے مطابق تین طلاق اور تعدد ازدواج دونوں کے حق میں اپنی رائے دیں گے کیونکہ شادی ہویا طلاق مسلمان قرآن اور شریعت سے ہر گز نہیں ہٹ سکتے۔ مولانا مدنی نے مرکزی حکومت کے رویہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت کر کے یکساں سول کوڈکے نفاذ کی راہ کوصاف کرنے کی کوشش کر رہی ہے جواس کثیر مذہبی ملک میں ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت ملک آزاد ہوا جمعیۃعلماء ہند ہی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تھی اور اس نے ملک کی آزادی میں سالہا سال سرگرم کردارادا کیا تھا۔ اس وقت جمعیۃ علماء کے رہنماؤں نے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہروسمیت تمام اہم لیڈروں سے واضح طور پرکہہ دیا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ تب ہی رہ سکتے ہیں جب آپ ہمیں ہمارے ملک ہندوستان میں مذہبی آزادی کے ساتھ رہنے کا دستوری حق دیں گے اور ان ہی شرائط کی بنیاد پر اس وقت کے رہنماؤں نے ملک کا سیکولرقانون وضع کیا تھا اور اقلیتوں کوان کے مذہبی امور انجام دینے کی مکمل دستوری آزادی مہیا کرائی گئی تھی، لیکن موجود حکومت ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے پرسنل لا ء میں بلا وجہ مداخلت کر کے ملک میں یکساں سول کوڈکے نفاذکی راہ ہموار کر رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ساتھ ساتھ اپنے تمام وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے ملک بھر کے مسلمانو ں میں اس تعلق سے بیداری پیدا کرے گی اورانہیں لاء کمیشن کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے کے لئے تیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء میں کسی بھی طرح کی مداخلت نا قابل قبول ہے اور جمعیۃ علما ء ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ مل کر ا س کے خلاف جد و جہد جاری رکھے گی۔ واضح ہو کہ سپریم کورٹ میں جسٹس وکرم سین اور جسٹس شیوا کرتی سنگھ کے ذریعے 15دسمبر 2015کو ایک سومونوٹس جاری کر کے یہ جواب طلب کیاتھا کہ ’’کیوں نہ یکساں سول کوڈ بنایا جائے‘‘ ؟ جمعیۃ علما ہندنے 5فروری 2016کو اس معاملے میں مداخلت کار بننے کی درخواست دی تھی ۔ جمعیۃ علما مہاراشٹر کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی کی جانب سے داخل اس درخواست کومنظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے چھ ہفتہ کے اندر اعتراض اور جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ اسی درمیان فرح فیض نے جمعیۃ علما کی رٹ کی مخالفت میں 28فروری 2016 کوسپرم کورٹ میں رٹ داخل کی ،جس کا جواب جمعیۃ نے 17مارچ کو داخل کیا اور 28مارچ کو جمعیۃ کی جانب سے مفصل حلفیہ بیان اور اس ایشو پر مکمل موقف داخل کیا گیا۔ اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے بھی 2ستمبر کو سپریم کورٹ کے سو مونوٹس کے خلاف اپنا اعتراض داخل کیا۔