عمر پیر زادہ

تاریخ ادیان و ملل شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گذر چکی ہیں اور معمورہ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقت حق کو فراموش کر چکا ہے تمام کائنات انسانی خدا پرستی کی بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور ہر ملک میں نوع انسانی سے لے کر نوع جمادات تک کی پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی خدا کا بیٹا۔ ایک اگر مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے سورج کی پوجا ہے چاند تاروں کی پرستش ہے حیوانوں ‘ درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے ‘ آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے اور نہیں ہے تو صرف ذات واحد قابل پرستش نہیں ہے نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اس کو اگر مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعہ۔ وہ اگر خالق موجودات ہے تو دوسروں کے واسطہ اور احتیاج کے ساتھ۔ مادہ ‘ روح اور ترکیب سبھی باتوں کا محتاج ہے وہ اگر مالک موجودات ہے بھی تو انسان ‘ حیوان ‘ درخت ‘ پتھر کے بل بوتہ پر ‘ غرض ساری دنیا میں اصل کار فرمائی مظاہر کی تھی اور ” ذات حق “ صرف نام کے لیے ‘ حقیقت سے چشم پوشی تھی مگر مجاز کے ساتھ ذوق عشق ‘ ذات حق سے بعد تھا مگر مظاہر سے قربت ‘ سرمایہ سعادت حق سے بیگانگی تھی۔ مگر مخلوقات کی عبادت گزاری شعار عام تھا ۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں ” سنت اللہ “ یعنی اللہ کے قانون ہدایت و ضلالت نے ماضی کی تاریخ کو پھر دہرایا اور غیرت حق نے فطرت کے قانون رد عمل (REACTION ) کو حرکت دی یعنی آفتاب ہدایت برج سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالم ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کر دیا۔

9 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کی صبح ‘ وہ صبح سعادت تھی۔ جب مدنیت و حضارت سے محروم ‘ بن کھیتی کی سر زمین مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبد المطلب کے یہاں آمنہ بنت وہب کے مشکوئے معلی سے آفتاب رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہور کیا۔ خدایا ! وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدہ جانفزا سنایا اور وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی ‘ عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو ‘ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک ہو اور آفتاب ہدایت روشن و تابناک ہو ‘ مظاہر پرستی باطل ٹھہرے اور خدائے واحد کی توحید مقصد حیات قرار پائے۔
دنیا تو کیا ملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبد المطلب کے گھرانے سے جلوہ گر ہوگا کہ اس کی ولادت باسعادت کو خاص اہمیت دیتے اور تاریخ ولادت کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کے نوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی بنانے کا فیصلہ کیا اسی کے ید قدرت نے ولادت باسعادت کے لیے ایک معجزانہ تاریخی نشان بھی ظاہر کر دیا اور وہ اصحاب الفیل کا واقعہ تھا۔ معتبر اور مستند روایات شاہد ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس واقعہ سے چند ماہ بعد ہوئی۔
یہ واقعہ جن خصوصیات کا حامل ہے ان کے پیش نظریہ عرب کے لیے عموماً اور اہل حجاز کے لیے خصوصاً نہایت عجیب اور حیرت زدہ تھا اور اس لیے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا نام ہی عام الفیل (یعنی ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک ” نشان “ ہے اس جلیل القدر ہستی کے ظہور کا جو ایک روز تمام معمورہ انسانی کو مرکز توحید اور قبلہ ابراہیمی پر جمع کر دے گی اور اس کو غیر اللہ (بتوں) کی آلودگیوں سے پاک کرکے توحید الٰہی کے نغموں کے لیے مخصوص کرائے گی۔ کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا گیا۔
یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے ‘ یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے مجسّموں کے سامنے سر جھکایا جائے ‘ نہ یہ آتش کدہ تھا کہ آگ کو نور کا مظہر قرار دے کر اس کی پرستش کی جائے اور نہ یہ صلوات یہود تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بیٹا بنا کر اس کی تقدیس کے نغمے گائے جائیں بلکہ یہ تو خدا اور صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
غرض بعثت کے بعد قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا راز سر بستہ آشکارا کر دیا تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرہۃ الاشرم اور اس کے لشکر سے کعبۃ اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی کہ وہ وقت قریب آپہنچا جب دوبارہ یہ مقدس مقام خدائے واحد کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمیٰ سے متصادم ہوگی خود ہی پاش پاس ہو کر رہ جائے گی۔
ابرہہ عیسائی تھا اور اہل عرب (قریش) مشرک ‘ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کی بربادی قریش کی نصرت و حمایت کے لیے تھی ‘ نہیں ! بلکہ اس لیے سب کچھ ہوا کہ مشیت الٰہی کے خلاف ابرہہ کی خواہش تھی کہ یمن (صنعا) میں جو خوبصورت گرجا (القلیس) باپ ‘ بیٹا اور روح القدس (تثلیث) کے فروغ دینے کو بنایا گیا تھا۔
مرکز توحید ” کعبۃ اللہ “ کی جگہ وہ مرجع خلائق بنے اور اس مقصد کی خاطر اس نے انہدام کعبہ کے لیے لشکر کشی کی ادھر قریش یعنی سارا عرب اس کی مقاومت سے عاجز و درماندہ تھا ابرہہ وقت کے تمام جنگی اسلحہ اور سر و سامان کا مالک اور قریش ان سب سے یکسر محروم ‘تب غیرت حق حرکت میں آئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الٰہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا اور محور توحید ” کعبہ “ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا۔
” بلاشبہ اس بات میں بڑی ہی عبرت ہے اس شخص کے لیے جو خوف خدا رکھتا ہے “مفہوم قرآن
قرآن عزیز نے سور الفیل میں اسی حقیقت کو معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ نقل کیا ہے :

مفہوم (اے پیغمبر ! ) کیا (تمہیں) نہیں معلوم کہ تیرے پروردگار نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ کیا ان کے فریب کو ناکام نہیں بنادیا ؟ اور ان پر فوج در فوج پرند بھیج دیئے وہ پرند ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پھر ( اللہ نے) ان (ہاتھیوں والوں) کو کھائے ہوئے بھوسے کے مانند کردیا۔ “
بہرحال عام الفیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کا سال ہے اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور قدسی کا سب سے بڑا قریبی نشان ہے اور یہ حقیقت اس شخص پر بخوبی عیاں ہے۔
مفہوم قرآن” جس کے پاس قبول حق کے لیے دل ہے یا وہ حاضر دماغی کے ساتھ امر حق کی جانب کان لگائے ہوئے ہے۔ “

تاریخ ولادت کی تحقیق
تمام ارباب تاریخ و سیر کا تین باتوں پر کلی اتفاق ہے ایک یہ کہ ولادت کا سال ” عام الفیل “ تھا۔ چنانچہ سیرت و مغازی کے مشہور امام محمد بن اسحاق اور جلیل القدر محدث و مورخ حافظ ابن کثیر ; جمہور کی یہی رائے نقل کرتے ہیں :
” جمہور کے نزدیک یہی قول مشہور ہے کہ نبی کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور ابراہیم بن منذر کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی عالم کو بھی شک و شبہ نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
اور دوسری اور تیسری بات یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں شنبہ (پیر) کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی :
” اور اس پر کلی اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شنبہ (پیر) کے دن پیدا ہوئے پھر جمہور کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ “
” ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں گاؤں کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ پیر کے دن کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور جس میں مجھ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ “
” ایک قول یہ ہے کہ اصحاب فیل کے واقعہ سے پچاس دن بعد ولادت باسعادت ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ “
ولادت باسعادت
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء ) کو مکہ مکرمہ میں پیدائش ہوئی۔ 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں آپ ؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ اللہ کی جانب سے انسانوں کی رہبری، بھلائی اور انہیںنیک راہ دکھانے کے لیے آنے والے انبیا کرام کے آخری نبی ہیں۔ جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال آپ ؐکی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب آپ ؐ کی عمر چھ سال تھی تو والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔
عربی زبان میں لفظ ” محمد” کے معنی ہیں ’جس کی تعریف کی گئی ‘۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب عوام میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِ َ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) — القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2)
جس میں اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو علم کی اہمیت، افادیت ، فضیلت، ضرورت سے نہ صرف واقف کرایا بلکہ سائنسی علوم سے بھی واقف کرایا، جس پرد نیا آج تک تحقیق و تصدیق کررہی اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ جس قدر دنیا اللہ کے احکامات اور پیغامات پر غور کرتی جائے گی اسے نئے گوشوں اور نکات سے واقفیت حاصل ہوگی،جو یقیناً پوری انسانیت کے لیے نفع بخش ہے۔
یہ ابتدائی آیات اب قرآن کی سورۃ علق کا ابتدائی حصہ ہیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتدا کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انھوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔
اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انھوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا لازمی حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ آپؐ کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے آنے والے آپؐ کی امت میں شامل ہیں۔

آپ ؐ کی شخصیت انتہائی وجیہ اور پرکشش تھی، جو ایک بار دیکھ لیتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
شاعر کہتا ہے
’حسنِ یوسف ؑ سے بڑھ کر جمال آپ کاؐ‘
حضرت ابن عباس ؓنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک اس طرح بیان کیا: ڈیل ڈول، قد و قامت دونوں معتدل اور درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا، ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل، آنکھیں سرمگیں، خندہ دہن، خوبصورت ماہ تابی چہرہ، داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کیے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔
آپ صلعم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین درج ذیل ہیں۔
خدیجہ بنت خویلدسودہ بنت ز معہ ،عائشہ بنت ابی بکر،حفصہ بنت عمر،زینب بنت خزیمہ،ہند بنت ابی امیہ ،زینب بنت جحش ،جویریہ بنت حارث، رملہ بنت ابوسفیان، ریحانہ بنت زید،صفیہ بنت حی بن اخطب ،میمونہ بنت حارث ، ماریہ القبطیہ
اولادیں
(حضرت القاسمؓ ،حضر ت عبد اللهؓ، حضرت ابراہيمؓ ، حضرت ؓ زينب ، حضرت ؓ رقيہ،حضرت ام کلثومؓ ، حضرت فاطمہؓ)
خلفا راشدین
حضرت ابوبکر صدیق اکبرؓ، حضرت عمر فاروق اعظم ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ
ان چاروں سے رسول اللہ کا ایک بہت ہی منفرد رشتہ بھی ہے۔ ان میں سے پہلے دو یعنی جانشین رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظمؓ آپ صلعم کے خسر ہیں ۔ ان کی بیٹاں آپؐ کی نکاح میں تھی اور تمام مسلمانوںکی مائیں ہیں۔ جبکہ حضرت سیدنا عثمان بن عفانؓ اور سیدنا علی مرتضیٰؓ آپ صلم کے داماد ہیں۔

عمر پیر زادہ
رابطہ عامہ افسر(پی آر او)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علیگڑھ۔
موبائل نمبر۔7906717808