کیا اپوزیشن کا کام صرف حکومت کی مخالفت اور بائیکاٹ کرنا ہی رہ گیا ہے

عبدالغفارصدیقی

9897565066

 گزشتہ دنوں (28مئی2023)پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔لیکن افتتاح کے پروگرام سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ کا نہیں کسی ”عظیم الشان مندر“ کا ادگھاٹن ہے۔پنڈتوں،پجاریوں اور سناتن دھرم کے رہنماؤں نے وہاں جو مذہبی رسومات انجام دیں،ان کو دیکھ کر ایودھیا میں بنائے جارہے بھویہ رام مندر کے شلانیاس کے مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی رسومات کی انجام دہی،منتروں کا جاپ،وزیر اعظم کا سراپا دنڈوت ہونا،ان میں کیا برائی ہے؟یہ تو اچھا ہی ہے کہ کسی عمارت کا افتتاح مذہبی رسومات سے انجام دیا جائے۔لیکن آپ کا یہ کہنا یا سوچنا بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے۔بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں،بلکہ آئین کہہ رہا ہے اور خود موجودہ وزیراعظم اپنی تقریروں میں یہ بات علی الاعلان کہتے رہتے ہیں۔سیکولرزم اس کے سوا کیا ہے کہ اسٹیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوگا،وہ جملہ مذاہب کا یکساں احترام کرے گی۔ حکومت کے اجتماعی اداروں اورسرکاری دفاتر میں کسی بھی مذہب کی اشاعت و تبلیغ نہیں کی جائے گی بلکہ ان کو مذہبی علائق و علامات سے بھی مزین نہیں کیا جائے گا۔بھارتی سیکولرزم کے مطابق مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ہر انسان کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے،لیکن اس کو یہ آزادی اپنے گھر میں ہے یا پھر اس کی کمیونٹی کے ذریعہ بنائی گئیں مذہبی عبادت گاہوں یا آستانوں پر ہے۔آپ اپنے طور پر قرآن پڑھیے،نماز پڑھیے،جو چاہے کیجیے لیکن سرکاری مقامات پر صرف وہ کام کیجیے جو تمام شہریوں کے لیے قابل قبول ہوں۔آج کل حکومت نے،پارکوں،سرکاری دفاتر،ریلوے اسٹیشنوں،ریل کے ڈبوں،یہاں تک کے سڑکوں کے کناروں پر بھی نماز پڑھنے پر پابندی لگارکھی ہے۔جہاں کوئی مسلمان ان مقامات پر سجدہ ریز ہوتا ہے تو اس کی ویڈیو بنالی جاتی ہے،اس پر ایف آئی آر ہوجاتی ہے۔لیکن اسی ملک کی پارلیمنٹ ہاؤس میں سیکڑوں سال پرانا سینگول نصب کیا گیا،اس کے سامنے محترم وزیر اعظم لیٹ گئے۔پارلیمنٹ کو آرٹس اور کلچر کی جن تصویروں سے سجایا گیا ہے،ان میں میری معلومات کے مطابق صرف اور صرف سناتن دھرم سے متعلق ہی مناظر پیش کیے گئے ہیں۔نہ جنگ آزادی کے مجاہدین کا ذکر ہے،نہ آزاد ہندوستان کے رہنماؤں کی تصویریں ہیں۔پتا نہیں بابا صاحب بھیم راؤامبیڈکر اور راشٹرپتا مہاتما گاندھی جی کو بھی جگہ ملی کہ نہیں۔حکومت کی یہ ساری کارکردگی یہ باور کراتی ہے کہ اب ملک صرف زبانی طور پر سیکولر ہے،عملی طور پر وہ ہندوراشٹر ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر سرودھرم پرارتھنا سبھا بھی منعقد کی گئی تھی۔لیکن اس سبھا کو اول تو پارلیمنٹ کے باہر کیا گیا،جب کہ سناتن دھرم کے مذہبی رہنماؤں کی رسومات پارلیمنٹ کے اندر انجام دی گئیں۔دوسرے یہ کہ اس سرو دھرم سبھا میں عیسائیت اور اسلام کے علاوہ باقی مذاہب کا تعلق دور یا نزدیک کا سناتن دھرم سے ہی ہے۔اسلام کی نمائندگی کے لیے خدا جانے کہاں سے بندہ پکڑ کر لایا گیا تھا،انسانی جسم کو رنگ تو اللہ نے بخشا ہے لیکن اس موقع پر اس شخص نے جو لباس زیب تن کیا تھا وہ مناسب نہیں تھا،ایسے مواقع پر ذرا چوغہ،پگڑی وغیرہ ہوتو اچھا لگتا ہے۔پھر اس شخص نے جن آیات کی تلاوت کی ان کی جگہ منتخب دعائیہ آیات تلاوت کی جاتیں تو بہتر تھا۔ اسی کے ساتھ ان آیات کا ترجمہ بھی کیاجاتا کہ سامعین کو معلوم ہوجاتا کہ آپ نے کیا پڑھا ہے۔کچھ مذہبی رہنماؤں نے اپنی مقدس کتاب کے خواندہ  حصے کا مفہوم بیان بھی کیا تھا۔ملک میں ایک سے ایک عالم موجود ہیں،خود حکومت کی مجلس العلماء میں بھی ہیں، پتا نہیں کس مصلحت کی بنا پر اس شخص کا انتخاب کیا تھا۔

تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کا سارا ہنگامہ اس بات پر تھا کہ اس کا افتتاح وزیر اعظم کو نہیں صدر یا اسپیکر کو کرنا چاہئے۔لیکن اس کے پروگرام کو لے کر شاید کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ایک سیکولر ملک میں ایک خاص مذہب کی نمائش کس طرح ہوسکتی ہے۔جس ملک کے سیاسی جلسوں میں نعرہ تکبیر کی صدا غیر قانونی ہو وہاں پارلیمنٹ میں یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے؟اپوزیشن نے یہ سوالات اس لیے نہیں اٹھائے کیوں کہ ان کی اکثریت خود اسی مذہب کی پیروکار ہے۔وہ خود اپنی سیاسی سرگرمیاں ناریل پھوڑ کر یا مندروں میں ماتھا ٹیک کر،پروہتوں کے آشیرواد سے شروع کرتی رہی ہیں۔وہ بھی ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے مذہبی کارڈکا استعمال کرتی رہی ہیں۔

پارلیمنٹ کے اس افتتاحی پروگرام نے ثابت کردیاہے کہ اب ملک کی سمت بدل چکی ہے۔اب یہاں سیکولرزم دم توڑ چکا ہے۔جلد ہی بھارت ایک مذہبی ریاست بن جائے گا۔اگر یہی حال رہا تووہ دن دور نہیں جب اسی پارلیمنٹ میں ہندوراشٹر کا بل لایا جائے گا اور صوتی ووٹ سے پاس ہوجائے گا۔آخر کون مخالفت کرے گا؟ کسی کو مخالفت کرکے اپنا ووٹ بینک تھوڑے ہی گنوانا ہے۔لیکن ووٹ بنک کی ضرورت ہی کیا رہے گی،جب انتخابات ہی نہیں ہوں گے یا ان کا طریقہ بدل جائے گا۔

اس موقع پر اپوزیشن کی کچھ جماعتوں نے پروگرام کا بائکاٹ کیا،یہ بھی ایک تکلیف دہ حادثہ ہے۔وہ سمجھتے کہ تھے وزیر اعظم کو دباؤ میں لے لیں گے۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم جس سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں وہ ایک نظریاتی پارٹی کی سیاسی ونگ ہے۔نظریاتی پارٹیاں کسی دباؤمیں آکر اپنے فیصلے نہیں بدلا کرتیں۔ملک کی پارلیمنٹ کا افتتاح کوئی معمولی فنکشن نہیں تھا۔یہ ملک کے قائدین اور عوام دونوں کے لیے ایک خاص واقعہ تھا۔ہم آئین سازی کی نئی عمارت میں منتقل ہورہے تھے۔جس طرح ہمیں اپنے مکان میں شفٹ ہونے کی خوشی ہوتی ہے،اس سے کہیں زیادہ مسرت اس موقع پر ہونا چاہئے تھی۔ہر مسئلہ کا حل بائیکاٹ نہیں ہے،کبھی کبھی تو بائیکاٹ مد مقابل کے کام کو آسان بنادیتا ہے۔اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ افتتاح کون کرتا ہے؟وزیر اعظم بھی پارلیمنٹ کا لیڈر ہے۔بھارتی آئین میں صدر مملکت کو امریکی صدر کی طرح اختیارات حاصل نہیں ہیں،امریکہ کے صدارتی نظام میں وزیر اعظم کی ضرورت ہی نہیں،بعض ممالک میں صدارتی نظام کے باوجود وزیر اعظم ہوتا ہے،جیسے ترکیہ میں صدارتی نظام ہے لیکن وہاں وزیر اعظم کا منصب بھی ہے،لیکن کتنے لوگ ان کے نام سے واقف ہیں،سارے لوگ یہی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہیں وہ اردگان ہیں۔ہمارے ملک میں مملکت چلانے کا جو نظام رائج ہے وہاں صدر کسی ہنگامی صورت حال میں تو اختیارات رکھتا ہے ورنہ وہ بیچارہ ہر اس کاغذ پر دستخط کرنے کو مجبور ہے جو سرکار کے ذریعہ اس کے پاس بھیجا گیا ہو،اگر ایک بار واپس بھی کردے تو دوبارہ اسے واپسی اختیار بھی حاصل نہیں۔اس لیے میرے نزدیک اپوزیشن کا محض اس بات پر پورے پروگرام کا بائیکاٹ کرنا کہ وزیر اعظم اس کا افتتاح کیوں کررہے ہیں؟ کوئی معقول اور مناسب عمل نہیں تھا۔آخر ہمارے وزیر اعظم ہی جب سارے کام کررہے ہیں تو انھیں ہی پارلیمنٹ کے افتتاح کا حق پہنچتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہی سارے پروگراموں کا افتتاح کرتے ہیں،وندے بھارت ٹرینوں کو ہری جھنڈی وہی دکھاتے ہیں،نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہیں،کرونا کے دور میں تالی تھالی انھوں نے ہی بجوائی تھی،وہی بیرون ملک کے دورے کرتے ہیں،کسی دوسرے وزیر کو شاید ہی دورے کی توفیق نصیب ہوتی ہو،ہمارے وزیر اعظم جہاں جاتے ہیں سارے وزیروں کے حصے کا بھی کام کرلیتے ہیں۔اگر کوئی وزیر جائے گا تو صرف اپنی وزارت پر ہی بات کرپائے گا،فیصلہ تو اسے بھی واپس آکر وزیر اعظم کے مشورے کے بعد ہی کرنا ہوگا۔اب خواہ مخواہ وزیروں کا وقت اور سرکار کا پیسہ برباد کیا جائے۔اس لیے وزیر اعظم سارے امور خوش اسلوبی سے خود انجام دے دیتے ہیں۔یہ تو اچھی بات ہے،جس کی تائید کی جانی چاہئے۔پھر اپوزیشن کو کیوں اعتراض ہو، اگر متعلقہ وزیرہی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ حکومت کی مخالفت ہی ان کا دھرم ہے۔حکومت پر اعتراض کرنا ہی ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔یہ سچ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی ذمہ داری حکومت کی کارگزاری پر اس طرح نظر رکھنا ہے کہ ملک میں آئین کی پاسداری ہو۔لیکن اسی کے ساتھ حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا،وزیر اعظم سے ملاقات کرکے انھیں دل سوزی و محبت سے سمجھانا،خیرخواہانہ جذبے کے ساتھ تعاون کی پیش کش کرنا بھی اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔مودی جی کے نوسالہ دور حکومت میں شاید دو بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں کا کوئی مشترکہ گروپ کسی موقع پر وزیر اعظم سے ملا ہو اور سنجیدگی سے اس ملک کی بھلائی کے لیے مشورے ہوئے ہوں۔آخر یہ ملک سب کا ہے۔اس کی حفاظت کرنا بھی سب کی ذمہ داری ہے۔اس کی ترقی و خوش حالی کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔بائیکاٹ اور مخالفت کی ہوا اگر اسی طرح چلتی رہی اور ہمارے قابل احترام وزیر اعظم بھی اگر’بال ہٹ‘ کرتے رہے تو آخر اس ملک کا کیا ہوگا۔

مجھے لگتا ہے کہ ملک کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ہر شخص اقتدار کا خواہش مند ہے۔ملک کو ہر وقت انتخابی موڈ پر رکھا جاتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن ہر وقت کہیں نہ کہیں انتخابات میں مصروف میں رہتی ہے،ملک اور اہل ملک کی بھلائی و خیر خواہی کے بجائے ذاتی مفاد پر ساری سیاست آکر ٹک گئی ہے۔حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی رایوں پر سنجیدگی سے غور کرے،انھیں بھی اپنی فلاحی اسکیموں میں شامل کرے،ان کو گلے لگائے۔ہر وقت 36کا آنکڑا ملک کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔