از۔ عارف نقوی برلن

Arif Naqvi-Berlin

نشیب و فراز ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ میں نے بھی کبھی جشن منائے ہیں اور کبھی آنسو بہائے ہیں۔ کبھی امنگوں ، ولولوں اورجوش کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی صبر و تحمل اور قناعت کی نعمتوں کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ میں ان خوش نصیبوں میں ہوں، جنہیں محبت کرنے والے عزیز و اقارب، پرخلوص دوست اور بے مثال مشفق بزرگ اور استاد حاصل ہوئے ہیںجن سے صرف روحانی قوت ہی نہیں ملی بلکہ بہت کچھ سیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔

شارب ردولوی نے اپنی ایک نظم کے دوسرے بند میں مجھ سے کہا تھا
کون لاتا ہے تمہیں کھینچ کے ہر سال یہاں
اب نہ ساتھی رہے باقی نہ وہ یارانِ وطن
اور نہ وہ دلکش چہرے
دیکھنے کے لئے اک بار جنہیں
چق کے پیچھے کبھی جامن کے تلے
کتنی ہی بار گزرتے تھے بہانے کرکے
اب تو وہ پیڑ بھی باقی نہ بچا
کون لاتا ہے تمہیں کھینچ کے ہر سال یہاں
کون بچا ہے باقی

دراصل اللہ تعلی نے کسی انسان میں برائیاں بھر کر اس کی تخلیق نہیں کی ہے۔ لیکن اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے یا جرم سرزد ہوتا ہے تو یہ اس کے ماحول اور سماجی حالات کا نتیجہ ہے، جو اسے خودغرض بھی بنا دیتا ہے اور تنگ نظر اور ظالم بھی۔اور اس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ اگر آپ واقعی دیدہ ور ہیں تو رات کے پر ہول اندھیرے میں بھی راستے کو پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ان ستاروں کی تجّلّی دیکھئے جو بھٹکتے راہی کو منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ کسی خوشنما گلاب کے حسن کے منظر میں محو ہوتے وقت خاروں کی ستم ظریفی کی شکایت نہ کیجئے۔ لیکن یہ سب اچھی اچھی باتیں کرتے ہوئے کیا میں خود ان اصولوں پر عمل کرتا ہوں۔لفاظی کرنا آسان ہے عمل کرنامشکل ہوتا ہے۔ انسان دنیاوی معاملات میں ، سیاسی اور معاشی معاملات میں انقلابی ہو سکتا ہے، ترقی پسندی کا دعویٰ کر سکتا ہے ، خود پر انسانیت کے لئے مجاہد ہونے کے بھرم کی نقاب چڑھا سکتا ہے۔ لیکن اپنی نجی زندگی، خاندانی زندگی اور ثقافتی زندگی میں انقلابی یا سچّا ترقی پسند ہونا بہت مشکل ہے

اللہ تعلی نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے مالامال کیا ہے۔مثلاً کیا؟ کون؟ کب؟ کہاں اور کیوں؟ اس سے پہلے کہ ہم کسی فرد یا گروپ کے بارے میں رائے قائم کریں ہمیں سوچنا چائے کہ وہ کون ہے؟ کہاں؟ کس ماحول میں اور کن حالات میں اس کی نشو نما ہوئی ہے اور وہ اس وقت ہے؟۔اگر وہ کوئی بات کہہ رہا ہے یا کوئی کام کر رہا ہے تو کیوں؟ یہ کیوں برائی یا تعریف کرتا ہے؟ یا برائی اور اچھائی میںتمیز نہیں کر پا رہا ہے تو کیوں؟ اگر ہم اس طرح سوچیں گے اور صرف کڑھتے ہی نہیں رہیں گے ، تو وہی انسان اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کے ساتھ ہمیں بے کار نہیںلگے گا۔اور ہمیں روحانی تسکین حاصل ہو گی اور ہماری اس تسکین سے ہماری ذہنی او ر جسمانی قوت کمزور ہونے سے بچ جائے گی۔ اسی لئے میں تو کہتا ہوں کہ اپنی بات سمجھا نے سے پہلے دوسرے کی بات اور اس کے نقطہء نظر کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ وہ تجربات ہیں اور سمجھ ہے جو میں نے اپنی ۸۷ برس کی عمر میں ترقی پسند ادیبوں کی تحریک اور زندگی کے نشیب و فراز اور اپنے دوستوں اوربزرگوں سے حاصل کئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میرے کسی افسانے یا ڈرامے میں کوئی ’ویلن‘ نہیں ہوتا ہے جسے عام طور سے کہانی کے فن میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔میرا مخالف کبھی کوئی فرد واحد نہیں ہوتا بلکہ وہ حالات، نظریات اور طبقاتی مفادہوتے ہیں اورذہنیتیں ہوتی ہیں جو انسانیت کے لئے مضرہیں۔

عالمی سطح پر اردو کے مسائل
ایک دوسری بات جو میں نے دیکھی اور سمجھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کو سب سے زیادہ نقصان اس کے رفیقوں نے پہنچایا ہے اور پہنچا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے جو اردو زبان و ادب کے گن گا تے ہیں ۔ اس کے صوتی حسن، خوبیوں اور محبت کے پیغام پر ناز کرتے ہیں، میر ، غالب، ذوق اور اقبال کے اشعار پر سر دھنتے ہیں ، چاہے ان کے اصلی مطلب سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔اردو کو کسی خوبصورت دُلھن کی طرح پیش کرتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں نمائش میں بٹھا دیا ہے اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم اس کا سنگھار کر رہے ہیں ۔ اس کے حسن کے جلووں سے جہان کو منور کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ہم اسے عوام کے قریب لے جا رہے ہیں؟ عوام کے مسائل اور ضروریات سے اردو کو جوڑ رہے ہیں؟ ہم صرف شین قاف کے چکر میں پڑے رہے ، اور آج بھی پڑے ہیں۔ لیکن اردو زبان کو گائوں والوں میں اور رکشے ٹانگے والوں میں مزدوروں اور قلیوں میں نہیں لے گئے۔ہم تنگ نظری کا شکار ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں اردو کے دلدادہ اور مجاہد ہیں۔ جبکہ اردو اور تنگ نظری ایک دوسرے کی ضِد ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل وہاٹس اَپ میں میری نظر ایک عبار ت پر پڑی تھی۔ ایک صاحب نے بڑے ہی دلچسپ اور شاعرانہ انداز میں موجودہ اردو کا مضحکہ اڑاتے ہوئے یہ شکایت کی تھی کہ اردو الفاظ عرب سے ہندوستان آتے آتے بہت کچھ بدل گئے ہیں۔ ان کے خیال سے یہ موجودہ اردوو کی کمزوری ہے۔ حالانکہ وہ شاید بھول گئے تھے کہ زبان کا کسی ملک کی تہذیب اور ثقافت اور سماج سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم نے ایسی تنگ نظری نہ دکھائی ہوتی ، تو اردو آج شمالی ہندوستان میں سب سے بڑی زبان ہوتی۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم اسے عام عوام میں لے جائیں اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ان کے مسائل کو اردو میں پیش کریں اور ساتھ ہی۔ کھیتی کس طرح ہوتی ہے۔ کارخانے میں مشینیں کس طرح کام کرتی ہیں ، مختلف کھیل کس طرح کھیلے جاتے ہیں ، دوائیں کیسی کیسی ہوتی ہیں، ان کا کیسے استعمال کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ ۔ اس سب کے بارے میں بھی کتابیں، کتابچے یا کم سے کم مضامین لکھے جائیں۔ بچوں اور عورتوں کی دلچسپی کی کہانیاں اور مضامین لکھے جائیں۔

ہمیں اس کی شکایت نہیں ہونا چاہئے کہ اردو اخبارات، رسالے اور کتابیں لوگ نہیں کریدتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ لوگ انہیں کیوں نہیں کریدتے ہیں؟ ہم انہیں کیا دے رہے ہیں؟ ہمارے مضامین، کہانیاں اور نظمیں ان کے دلوں کو کیوں نہیں چھوتی ہیں؟ اب آپ یہ دیکھئے کہ اردو میں کتنے بڑے بڑے نقاد اور عالم موجود ہیں۔جو اپنے علم کا رعب ڈالنے کے لئے سارے عالم کے بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں کے حوالے دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن کیا ان کی اپنی زبان کو سمجھنے کے لئے بعض اوقات کسی کو ڈکشنری کا سہارا نہیں لینا پڑتا ہے؟ وہ عام اور سادی زبان کیوں نہیں استعمال کرتے ہیں؟ جبکہ اردو کا خزانہ ان سے بھرا ہوا ہے۔اب تو یہاں تک ہوتا ہے کہ اپنی بات سمجھانے کے لئے انگریزی الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔امید ہے کہ میری اس گستاخی پر ناراض ہونے سے پہلے ہمارے نقاد اور عالم ، جن سے خود میں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے، ان باتوں پر بھی دھیان دیں گے۔

اردو اور ہندی کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد انھیں الگ الگ مذہبوں کو ماننے والوں کی اور دو مختلف ممالک کی زبانیں سمجھ لیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان میں عام فہم اردو الفاط کی جگہ عربی فارسی کے الفاظ بھرے جانے لگے اور ہندوستان میںہندی کے عام فہم الفاظ کو سوتیلا سمجھ کر سنسکرت کے الفاظ بھرنا شروع کر دیا گیا۔ان میں بھی ان حروف کو جو لوگوں کی زبان سے مشکل سے ادا ہوتے ہیں جیسے کرشنا کی جگہ ’’کرشڑاں‘‘ حالانکہ خود کرشنا مینن انگریزی میں اپنا نام لکھتے وقت Krishna Menonلکھتے تھے۔ اس تنگ نظر ذہنیت اور نام نہاد جدت پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے عوام سے یہ نوالے ہضم نہیں ہوئے اور انہوں نے انگریزی کے الفاظ استعمال کرنا شروع کر دئے اور ہمار میڈیا اور دانشور واہ واہ کرتے رہے۔ایسا ہی ہماری پوری تہذیب اور ثقافت پر اثر پڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج سنگیت میں کلاسیکی راگوں کا زوال ہو رہا ہے اور رقص میں کتھک ، بھرت ناٹیم وغیرہ کی جگہ اچھل کود کرنے والے رقص زیادہ مقبول ہیں۔ کیونکہ چاہے زبان ہو یا موسیقی اور رقص یا مصوری یہ سب تہذیب کے حصّے ہیں۔

ایک بات اور صرف لاکھوں روپئے خرچ کر کے موٹی موٹی خوبصورت کتابیں لکھنا یا لکھوالینا ہی کافی نہیں ہے۔ یا انعامات تقسیم کر کے تیر مار لینا کافی نہیں ہے ۔ حالانکہ ان کی بھی اہمیت ہے۔ لیکن کتنے لوگ موٹی موٹی خوبصورت نمائشی کتابیں پڑھتے ہیں؟ اس سے بھی بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر موضوع پر کتابچے شائع کئے جائیں۔ ویڈیو بنوائے جائیں۔ اردو گانوں اور عام فہم غزلوں کو سنگیت کے ساتھ سب جگہ پہنچایا جائے تاکہ لوگوں کا مزاج بنے۔ کہانیوں پر مبنی چھوٹی چھوٹی دلچسپ فلمیں بنا کر انھیں مقبول بنایا جائے۔ اور ساتھ ہی اردو زبان و ادب سے متعلق چھو ٹی چھوٹی نمائشیں بھی تیار کی جائیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ غالب کو اب تک پڑھے لکھے لوگ ہی سمجھتے تھے لیکن گلزار نے غالب پر فلم کے سلسلے سے جگجیت سنگھ نے اپنی مدھر سنہری آواز سے سارے ملک میں شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک اسے مقبول بنادیا ہے۔ لتا منگیشکر اور دیگر گلوکاروں نے اردو گیتوں اور غزلوں کو مقبول بنا دیا ہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ زبان استادوں اور پروفیسروں سے نہیں بنتی وہ ہمیں اس کی قوائد سمجھا سکتے اس کی نشو نما کے اسباب اور تاریخ بتا سکتے ہیں ، تجزیہ کر سکتے ہیں، لیکن زبان عوام سے بنتی ہے۔ ضروریات سے بنتی ہے ۔ جیسے دلی اور اس کے اطراف کے عام لوگوں اور ترکوں و مغلوں کے بیچ ضروریات کے باعث ہی رابطے ہوئے تھے۔

ہمیں اپنی زبان میں اصلاح کے لئے کمیشن بنانا چاہئے جو سنجیدگی سے کام کرے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا رسم الخط ہماری پہچان ہے اور اس میں دوسری زبانوں کے مقابلے میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنا چاہئے۔ لیکن کتنے ایسے پڑھے لکھے اردو داں ہیں جو خود ذ، ز، ض اور ظ کا استعمال کرتے وقت کبھی کبھی غلطی کر بیٹھتے ہیں، تو نئے سیکھنے والوں کا وقت ایسی بحثوں میں کیوں خراب کیا جائے۔ یہ مسئلہ خاص طور سے برصغیر کے باہر اردو کے فروغ میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ جرمنی میں میرے بہت سے طالبعلم پوچھتے ہیں ، کہ جب آپ کا نام ’عارف‘ ہے تو آپ اسے ’الف‘ سے کیوں نہیں لکھتے؟ اور جب میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی کا ہے ۔ عربی میں ’ع‘ سے لکھتے ہیں تو ان کا دوسرا سوال ہوتا ہے، کہ آپ کا نام تو اس طرح نہیں لیا جاتا جیسے عربی میں ہونا چاہئے۔ غرضیکہ اس قسم کی گتھیوں میں الجھا کر ہم ان کی دلچسپی کم کر دیتے ہیں۔ اس لئے سنجیدگی سے ہمارے ماہرینِ زبان کو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہئے۔

ساتھ ہی ہمیں انٹر نیٹ اور وھاٹس اَپ میں استعمال ہونے والی اردو کے لئے اصول بنانے چاہئے ہیں تاکہ لوگ صحیح اردو لکھیں اور خاص طور سے لاطینی رسم الخط میں اردو کو صحیح لکھیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے بڑے اداروں اور یونیورسٹیوں کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے۔ اگر ہم اردو کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیںتو ہمیں نئی نسل کے مزاج اور مسائل کو بھی سمجھنا ہوگا۔ خاص طور سے انٹرنیٹ اور وھاٹس اَپ میں وہ کس زبان ، رسم الخط اور اسکے استعمال کے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں ان سب میں ان کی اصلاح اور امداد کرنا ہوگی۔

ہمیں اردو کے بارے میں لفاظیوں کی ضرورت نہیں ہے نا ہی یہ ثابت کرنے کی کہ اردو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے۔ جب ہم دنیا کی دوسری زبانوں اور ادب کے بارے میں جانتے ہی نہیں تو اس قسم کی خوش فہمیوں سے کیا فائدہ۔ ظاہر ہے کہ ہمارے لئے اردو دنیا کی سب سے خوبصورت اور سب سے قیمتی زبانوں میںسے ایک ہے۔ لیکن ہم اس کے حسن میں تبھی چار چاند لگا سکیں گے جب ہم دوسری زبانوں اور ادب کے زیورات سے بھی اسے سجا دیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسری زبانوں کا بھی احترام کریں اور ان سے اپنی زبان و ادب کے فروغ میں استفادہ کریں۔

اگر ہم برصغیر کے باہر اردو کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور خاصکر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسی نصاب کی کتابیں تیار کرنا ہوں گی جو غیر اردو داں حلقوں کے مزاج کے مطابق ہوں اورآسانی سے ان کی سمجھ میں آئیں اور ان میں اردو سے دلچسپی پیدا کریں۔

جہاں تک اردو ادب کو مقبول بنانے کا سوال ہے تو اس کے لئے تین قسم کے موضوعات مناسب ہیں۔

ایسا ادب جو ان کے مزاج کے قریب ہو اور ان کے دل کو چھوئے۔ مثلاً میں نے جرمنی آنے کے بعد کرشن چندر کے دو ڈرامے ’سرائے کے باہر‘ اور ’کتے کی موت‘ برلن ریڈیو کے لئے ترجمہ کئے، جو اتنے پسند کئے گئے کہ پروگرام بار بار دوہرائے گئے۔ اسی طرح سے کرشن چندر کی کہانی ’آخری بس‘ جو میں نے جرمن رسالے Sinn und Formکے لئے ترجمہ کی کافی پسند کی گئی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ان میں جو مسائل تھے وہ جرمنوں کے دل کو چھو رہے تھے۔جرمن پروفیسر اَنے ماری شِمِل تو اقبال کی بعض نظموں کی عاشق تھیں۔ اگر ہم محبت، امن، دوستی ، استحصال کے خلاف اور انصاف کے لئے جدوجہدیا ماحولیات کو حائل خطرات کے بارے میں مضامین اورکہانیوں کا ترجمہ کریں گے تو وہ یورپ میں مقبول ہوں گے۔

میرا اردو میں لکھا ہوا ایک ’فُل لینتھ‘ ڈرامہ ’دور کے ڈھول‘ جب جرمن زبان میں اسٹیج پر پیش کیا گیا تو بہت کامیاب رہا، کیونکہ
اس میں اداکاری کے سبھی مواقع بھی تھے، مکالمے بھی جو جرمنوں کو دلچسپ لگ رہے تھے اور ہندوستانی رقص و موسیقی بھی۔ یہاں تک کہ یہ ڈرامہ ایک اسٹیج پر ٹکٹ لگاکر کھیلا گیا جسے دیکھنے کے لئے تین سو سے زیادہ لوگ آئے۔ اور ڈرامہ ختم ہوتے ہی ہندوستانی سفارت خانے کے کونسل شری پوری نے جوش میں اسٹیج پر آکر مجھے گلے لگا لیا اور بیس اداکاروں کو گلدستے پیش کئے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اب تک جرمن ادب سے اردومیں جو ترجمے ہوئے ہیں وہ زیادہ تر انگریزی کی مدد سے کئے گئے ہیں ۔ جس سے اصلی ادب سامنے نہیں آسکا ہے۔ ایسا ہی اردو سے جرمن میں ترجمے کے معاملے میں ہے ۔میرا اپنا تجربہ تو یہ ہے کہ کوئی اردو داں کسی جرمن کے ساتھ مل کر ترجمہ کرے تو وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔ میری دو کتابیں جرمن زبان میں شائع ہوئی ہیں۔ نظموں اور غزلوں کا جرمن زبان میں مجموعہ Dornen und Rosenجس کی برلن میں ۲۰۱۵ء میں رسم اجراء ہوئی اور دوسری کتاب میری کہانیوں کا مجموعہ Trommeln aus der Fernen جس کی رسم اجرا ء ۲۰۱۶ء میں برلن میں ہوئی۔ دونوں بار ہال لوگوں سے بھرا تھا جن میں تین چوتھائی سے زیادہ جرمن دانشور تھے۔ ان دونوں کے ترجمے میں نے خود کئے تھے لیکن چند جرمن دوستوں نے جیسے میری بیٹی نرگس اور ہماری اردو انجمن کے سکریٹری اووے فائلباخ نے ترجمے کی زبان کو اور خوبصورت بنادیا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے پسند کیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اردو ناول کا جرمن زبان میں ترجمہ کرتا ہے یا جرمن سے اردو میں ترجمہ کرتا ہے تو اسے کون شائع کرے گا؟ اب تک بہت سے ترجمے سفارت خانوں نے ادیبوں کو پیسے دے کر کروائے ہیں۔ لیکن اگر کوئی خود ترجمہ کرتا ہے تو اس کا حشر کیا ہو تا ہے؟ ہمارے بر صغیر کے بڑے اداروں کو اس کا حل نکالنا ہوگا۔ہمارے ہندوستان کے بڑے ادارے بیرونی ممالک میں رہنے والے اردو اسکالروں اور ادیبوں سے کیوں نہیں یہ کام لیتے؟ کیا ان سے بہتر ترجمہ وہ لوگ کر سکیں گے جنہیںکسی دوسر ملک کی زبان اور تہذیب اور لوگوں کے مزاج کی زیادہ واقفیت نہیں ہے او ر صرف انگریزی ترجمے کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے ترجمے سے اردو کی مٹی بھی پلید کرتے ہیں۔

ہمارے بڑے بڑے قومی اداروں کو چاہئے کہ عاالمی سطح پر اردو کے فروغ میں معاونت کے لئے شعبے قائم کریں۔ نیز جب کسی ملک میں اردو کی کانفرنسیں، سیمینار یا مشاعرے ہوں اور ان میں شرکت کے لئے اردو دانشوروں کو مدعو کیا جائے تو ان کی مددکریں۔ کم سے کم ان کی آمد و رفت کابندوبست کریں اور انھیں ویزا حاصل کرنے میں مدد دیں۔ جو دنیا کے دوسرے حصّوں میں اردو کے فروغ کے لئے ایک بہت بڑا تعاون ہوگا۔ مثلاً ہندوستان کا سرکاری ادارہ کونسل برائے فروغِ ثقافت، دوبار میری درخوست پر اردو انجمن برلن کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہمارے مہمانوں کو ہوائی جہاز کا ٹکٹ فراہم کر چکا ہے اور ویزا حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ جس کے لئے ہم اس کے مشکور ہیں۔

مہجری ادب کے فروغ میں ہمارے بڑے اداروں کو عملی قدم اٹھانا چاہئے۔اسے مہجری ادیبوں کی تخلیقات کی اشااعت میں بھی مددد دینا چاہئے۔ یہ طریقہ بھی ختم ہونا چاہئے کہ لوگ اپنی اشاعت کے لئے بھیک مانگیں۔ خود ہندوستان میں بھی بہت سے خوددار ادیب شاید ایسا نہ کرتے ہوں اور روپوشی میں پڑے ہوں۔ بڑے اداروں کا ایک فرض یہ بھی ہونا چاہئے کہ گدڑی کے لعل اور کیچڑ کے کنول تلاش کریں۔ اور اگر یہ ادارے ایسا نہ کر سکیں تو اردو زبان کی خدمت کے دعویداروں کو ایسا کرنا چاہئے۔ مجھے اپنی نوجوانی کا زمانہ یاد آرہا ہے جب لکھنئو میں نظیر آباد کے سنگم ریستوراں میں اور نخاس کے کاظم ریستوراں میںبہترین شعراء کو دیکھا کرتا تھا، لیکن زمانہ ان کو بھول گیا ہے ، کیونکہ وہ اپنی خودداری کی وجہ سے کسی کے پاس اپنی تشہیر کے لئے نہیں جاتے تھے، بلک اپنی تشہیر خود کرنا ہی نہیں جانتے تھے۔ آج بھی برصغیر میں اور دنیا کے دوسرے حصّوں میں ایسے بہت سے ہنرمند موجود ہیں ، جو اپنی تشہیر نہیں جانتے ہیں۔ نا ہی میری طرح ہندوستان ، پاکستان اور دوسرے ممالک میں جاکر ادیبوں سے مل سکتے ہیں۔نا ہی ان کے لئے رسمِ اجراء کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ جو میں نے محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ یورپ میں لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ اردو پڑھ کر بعد میں کیا کریں گے؟ آخر وہ اردو کیوں پڑھیں؟ صرف اس لئے کہ اردو ایک خوبصورت زبان ہے؟ آج کے زمانے میں اتنا کافی نہیں ہے؟ ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کرنا اور کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔

میں اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔ لیکن حقائق سے آنکھیں بھی نہیں بند کر سکتا۔ ہم اگر دکھاوٹی نہیں بلکہ سنجیدگی سے اپنی زبان و ادب کے فروغ میں دلچسپی لیتے ہیں، تو اس کے حسن پر واہ واہ نہ کریں، قُربان نہ جائیں اور بلائیں نہ لیں ، بلکہ سنجیدگی سے اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

ساتھ ہی میںاپنے پروفیسروں ، عالموں اور اسکالروںسے یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ اردو ادب کو دنیا میں مقبول بنانا چاہتے ہیں تو اپنے خول سے باہر نکل کر اپنے سوچنے کے دائرہ کو وسیع کیجئے۔ عالمی نقطہء نظر سے سوچئے، تو آپ دیکھیں گے کہ ساری دنیا میں آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ میں ان سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ نئے ادیبوں اور دانشوروں کی زیادہ سے زیادہ ہمت افزائی کیجئے، انھیں ابھرنے دیجئے۔ ان کے لئے زیادہ سے زیادہ راستے بنائیے۔ لیکن جھوٹی ہمت افزائی اور غلط تعریف نہ کیجئے، ورنہ آپ ان کی ترقی کی رفتار کو روک دیں گے اور ان میں سہل پسندی پیدا ہو جائے گی، جو ابھرتے ہوئے ادیبوں کے ذہن اور ہنر کے لئے قاتل ہوگی اور اردو زبان و ادب کے لئے بھی نقصان دہ ہوگی۔

آخر میں ایک عرض اور کرنا چاہوں گا، خاص طور سے کرونا کی وبا سے پریشان دانشور و پرجوش دوستوں سے۔ کورونا
کی وبا نے ہمارے چاروں طرف دہشت کی چہاردیواری کھڑی کی ہے لیکن ہمیں اپنی بات کہنے اور ادب کو فروغ دینے کے بہت سے ٹکنالوجیکل ذرائع بھی حاصل ہو گئے ہیں۔ ان کا استعمال کیجئے لیکن ان کے غلط استعمال کی ہمت افزائی نہ کیجئے۔ بازارو پن کو روکئے۔ صرف تنظیمیں، ادارے، بنالینے اور لوگوں کی جھوٹی تعریفوں سے ادب کو نہ مقامی سطح پر فروغ ملے گا نہ علاقائی اور عالمی سطح پر۔ اردو زبان و ادب اور اس کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیجئے۔ ایمانداری اور خلوص سے ، گروپ بازیوں کوپرے رکھ کر ادب کو فروغ دیجئے، تو اردو کی تاریخ میں آپ کی تحریریںبھی سنہری نظر آئیں گی اور ہمارے جیسے لوگ احترام سے سر جھکائیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ اردو کا مستبل شاندار ہے

ٹوٹے ہوئے قلم سے ٹپکتا ہے خونِ دل
تحریر بولتی ہے زبان گر خموش ہے

عارف نقوی
برلن، ۲۵؍ فروری ۲۰۲۱ء