منیر احمد ٹمکور

منیر احمد ٹمکور

شادیوں کا موسم ہے، موسم بہار کا موسم ہے ہمارے موجودہ دور کے نواب زادوں کے لئے۔ امیروں کے لیے جو شادیوں میں دیوانہ وار دولت لٹا رہے ہیں جنھیں دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ لیکن دل رونے لگتا ہے۔ ابھی ابھی ایسی ایسی عالیشان شادیوں کو دیکھ کر ہمیں اودھ، موجودہ لکھنؤ، کے نواب کے بیٹے کی شادی یاد آرہی ہے جس کا آنکھوں دیکھا حال ایک انگریز نے لکھا ہے۔ ایک انتہائی خوبصورت خوابوں کی دنیا کی شادی شاید اس سے پہلے زمانے نے دیکھا ہوگا اور نہ ہی دیکھے گا۔

یہاں آپ کو ایک بات یاد دلا دیں کہ مغلیہ سلطنت دنیا کی مالدار ترین حکومت تھی۔ اس کے پاس ہیرے جواہرات موتی سونا چاندی وغیرہ کے کتنے بڑے انبار ہونگے اس کا اندازہ شاید ہی کوئی کر سکتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد کے بعد یہ عظیم الشان سلطنت بکھر گیء۔ راجاؤں نے نوابوں نے اپنی اپنی حکومت قائم کر لی۔ انگریزوں نے یکے بعد دیگرے انہیں شکست دی اور دولت لوٹنے لگے۔ جس شادی کا آنکھوں دیکھا حال ھم سنانے جا رہے ہیں اس سے مغلوں کی سلطنت کی دولت کاایک ہلکا سا انداز لگایا جا سکتا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں اس قدر مالدار ہوں تو پھر مغلوں کے پاس کس قدر دولت رہی ہوگی۔ آپ اس شادی کا حال سن کر سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مسلمانوں نے کس بیدردی سے دولت کو لٹایا تھا۔


انگریزوں ہندوستان کے مسلمانوں کی شادیوں کو دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان شادیوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اودھ کے نواب کے بیٹے کی شادی کا تفصیلی حال ایک انگریز یل،ف سمتھ نے لکھا ہے جسے ہم پیش کر رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے اودھ کے نواب آصف الدولہ کے بڑے بیٹے وذیر علی کی شادی 1795 میں لکھنؤ میں ہویی تھی۔ یہ شادی بڑود کے مہاراجہ اور گجرات میں وہاں کے شہزادے شہزادیوں کی جو بھی شادیاں ہم نے دیکھی تھیں ان سب کو حیران کرنے والی شادی تھی۔

اس شادی میں ملک کی تمام مشہور شخصیات کو دعوت دی گئی تھی۔ انگلینڈ کی عورتوں کی ایک ٹیم ہاتھیوں پر سوار ہوکر اس میں شامل تھیں۔شامیانہ شہر کے باہر ایک کھلے میدان میں ڈالا گیا تھا۔ اس کی سجاوٹ میں انگلینڈ کا سب سے بہترین رنگ برنگے سلک اور کاٹن کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان دونوں شامیانے کے لئے پانچ لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔ یعنی پچاس ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ۔ یہ صرف خواتین اور خصوصی مہمانوں کے لئے تھا۔ ہمارے استقبال کے لئے ایک اور طول طویل شامیانہ وہ بھی انگلینڈ سے خصوصی طور پر منگایا گیا اعلی معیار کے کپڑے سے بنایا گیا تھا۔ شامیانے کے کھمبوں پر چاندی کی پرتوں سے سجایا گیا تھا۔ نواب نے انتہائی خلوص سے استقبال کیا۔ اور ایک انتہائی خوبصورت خوابوں کی دنیا جھلکانے شامیانے میں بٹھایا گیا جہاں ہم ایک گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ نواب نے ہیرے جواہرات موتی کے جو ہار پہننے ہوئے تھا ان کی مالیت بیس لاکھ پاؤنڈ اسٹرلنگ تھی۔ ۔ یہاں سے ہمیں شادی کے شامیانے میں بٹھایا گیا جو کہ انگلستان کے سیکڑوں انتہائی خوبصورت اور بیش قیمت قمقموں، دلکش جھومروں شیشوں سے سجایا گیا تھا۔ ان کی چندھیا دینے والی روشنی آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔ وہاں تقریباً سو خوبصورت ناچنے گانے والی لڑکیوں کا گروپ آیا دلکش کپڑے پہنے اور ناچنے گانے لگیں۔ ھندووی فارسی آمیز شاعری میں۔ تقریباً سات بجے دلہا وزیر علی آیا ہیرے جواہرات موتی کے بیش بہا زیورات سے لدے ہوئے اس قدر کہ مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ دلہا تیرہ سال کا تھا اور دلہن دس سال کی۔دونوں کالے رنگ کے تھے

شامیانے سے ہمیں نکاح کی محفل میں لے جایا گیا جو کہ ایک انتہائی خوبصورت خوابوں کی دنیا کی طرح سجے سجائے باغ میں۔ یہ ایک میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ شادی کا جلوس ہمارے تصور سے زیادہ شاندار تھا۔ بارہ سو بہترین رنگ سے سجے سجائے ایک قطار میں فوجی انداز سے چلتے ہوئے چاندی سے سجایا گیا تھا۔ ان کے درمیان ایک انتہائی بڑے ہاتھی پر سوار ہوکر آرہے تھے نواب صاحب ۔ قیمتی ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنایاگیا ہودا سارا ہاتھی سونے کی چادروں سے لپٹا ہوا۔ اس کی سیدھی جانب انگریز سرکار کا ریزیڈنٹ تھا تو داہنے جانب دلہا تھا۔ انگریزوں اور ان کی عورتوں اور مقامی نواب زادے مل جل کر پیچھے آ رہے تھے۔

راستے کے دونوں اطراف سجاوٹ ہی سجاوٹ تھی۔ سجے ہوئے مینار ، پلیٹ فارم، کمانیں روشنی کے فوارے ابلتے ہوئے انتہائی خوبصورت نظارے پیش کرتے ہوئے۔ ہمارے آگے ایک دلکش پلیٹ فارم پر حسین لڑکیاں ناچ رہی تھیں جسے مزدور اٹھاے آگے بڑھ رہے تھے۔پورے راستے میں قالین بچھے ہوئے تھے ہاتھیوں کے لشکر کے ایک ایک قطار اور ایک ایک قدم کے ساتھ آتش بازی ہو رہی تھی جس سے آسمان ستاروں سے سجایا گیا نظر آتا تھا۔ اندھیارے روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں تین ہزار آدمی روشنی بکھیرنے والے قمقمے اٹھاے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس طرح ایک میل دور واقع باغ تک پہنچنے کے لئے دو گھنٹے لگے۔ باغ میں ہاتھیوں سے اترے۔ ۔ سارے باغ کی ڈالیوں پر رنگین روشنی بکھیرنے والے قمقمے اور لالٹین لٹکے ہوئے تھے۔ بہت بڑا باغ تھا۔ اگے کھانے سجے ہوئے تھے بے شمار ھندی اور۔ ۔ انگریزی کھانے۔ ہر قسم کی شرابیں بھی موجود تھیں حسین و جمیل ایک سو لڑکیاں ناچنے والی مہمانوں کو لبھانے میں مشغول تھیں۔ لوگ کہ رہے تھے ایسی شادی اب تک نہ کسی نے دیکھی ہوگی اور نہ آگے دیکہیں گے۔ اسی دھوم دھام سے تین دنوں تک شادی کا غلغلہ جاری رہا۔ اس شادی پر تین سو ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ سے ذیادہ ہی خرج ہوئے۔ آج کے حساب سے یہ خرچ اربوں روپے تک پہنچ جاتا ہے۔

اس کے بعد کے واقعات بڑے ہی دردناک ہیں۔ انگریزوں کو پتہ چل گیا کہ نواب کے پاس ابھی اربوں کی دولت موجود ہے۔ ہیرے جواہرات موتی سونا چاندی کی شکل میں جو اس دولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہے۔‌ کسی نہ کسی بہانے سے۔ بیثے کی شادی شاید بہت ہی عمدہ طریقہ تھا عوام میں اپنی شان و شوکت کے روپ دکھلانے کے لئے۔‍

نواب کے پاس انگریزوں کے مطابق اسی ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ کی دولت تھی۔ انگریزی چیزوں کا دیوانہ تھا۔ سالانہ ہزاروں پاؤنڈ اسٹرلنگ کی خریداری کرتا۔ پانچ سو حسین و جمیل باندیاں اپنے حرم میں پال رکھی تھیں۔اسکے پاس بیس محل تھے۔ دولت کا دیوانہ تھا۔ اکثر اوقات اپنے خزانے کے پاس بیٹھ کر اسے تکتا رہتا تھا۔ایک چھوٹے بچے کی طرح جو کھلونوں سے کھیلتا ہے۔ اس کے انتقال کے بعد وذیر علی نواب بنا۔ انگریزوں کی نظر اس کی دولت پر تھی۔ کچھ بہانہ بنا کر انگریزوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ساری دولت لوٹ کر انگلستان لے گئے۔ اٹھارہ سالہ وزیر علی کو گرفتارکر کے کلکتہ میں ایک پنجرے میں بند کردیا۔ جہاں وہ سسک سسک کر مر گیا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ ترین قدروں سے کس قدر دور بہت دور ہیں۔ لکھنؤ کے نواب کی طرح شادیوں میں کس قدر کروڑوں کی دولت لٹا رہے ہیں۔ حجاب کی لڑائی ہماری معصوم بچیاں لڑ رہی ہیں۔ بے شمار طلباء وطالبات فیس کے لئے مجبور ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہ نواب زادے اپنی مستیوں میں گم ہیں۔ یہ بھول گئے ہیں کہ دولت آنی جانی ہے۔ زمانہ ان کی خرمستیاں دیکھ رہا ہے۔ ھم نے اودھ کے نواب کی ایک مثال پیش کی ہے۔ کہ شاید کہ سبق حاصل کریں