(مفتی) شفیع احمد قاسمی خادم التدریس جامعہ ابن عباس احمد آباد

شریعتِ اسلامی نے جب بھی کسی چیز کا حکم دیا ، تو لوگوں کے سامنے اس کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ، اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا ، اس کے کسی پہلو کو پردہ خفا میں نہیں رہنے دیا ،شریعت غرہ کا یہ امتیاز رہا ہے، چنانچہ شریعت نے جب قربانی جیسی عظیم عبادت کا حکم دیا ، تو اس کے طریقۂ کار کو بھی تفصیل سے بیان کیا ، اور جہاں جہاں خطاؤں کے امکانات تھے ان مقامات پر بھی بسط سے روشنی ڈالی،
قربانی کے حوالے سے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ قربانی خالصتاً اللہ کیلئے ہو، اس میں ریا سمعہ اور شہرت طلبی کی آمیزش نہ ہو، خصوصاً جب کوئی عمدہ اور انتہائی تندرست جانور خریدتا ہے، تب اسے شیطان ورغلاتا ہے،اور اس کی نیتوں میں فتور آجاتا ہے، کہ واہ  بھائی واہ ،سوسائٹی میں جو شخص دیکھے گا، ہر کوئی اسے داد و تحسین سے نوازے گا، اس کی تعریف و ستائش کریگا، اور بعضے تو اسی لئے مہنگا جانور خریدتے ہیں،کہ معاشرے میں اس کی پیٹھ تھپ تھپائی جائی، اس کی خوب واہ واہی ہو کہ اس سے زیادہ قیمتی کسی کا جانور نہیں ہے، اگر اس جذبے سے قربانی کی گئی ہے تو اس کی قربانی کی خدا ہی خیر کرے، سنیئے ،قرآن پاک میں رب ذوالجلال کا فرمان کیا ہے، خدا تک ہرگز قربانی کا گوشت اور اس کی کھال نہیں پہنچتی ، لیکن اس تک تمہارا تقوی پہنچتا ہے : سورۃ الحج: آیت نمبر 37 :
دوسری اہم چیز یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت اگر چھری چلانے والے کے ساتھ کسی اور نے بھی تعاون کیا ، تو ذبح کے وقت دونوں کو تسمیہ (بسم اللہ اللہ اکبر ) کہنا ضروری ہے، اور اگر ان میں سے ایک نے تسمیہ کیا، اور دوسرے نے عمدا ترک کر دیا، تو اس کا کھانا حرام ہوجائے گا،: (شامی : ج/9 :ص /365 )اگر ذبح کرنے والے نے بسم اللہ اللہ اکبر کہا، اور کھانے پینے میں مصروف ہوگیا ، پھر بغیر تسمیہ( بسم اللہ اللہ اکبر )کے ذبح کر دیا ، تو تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر وقفہ طویل ہوگیا ہے تو جانور حرام ہے اور اگر وقفہ مختصر ہے ،تو حرام نہیں ہے ، اور وقفہ کی طوالت و اختصار کی حد یہ ہے کہ دیکھنے والا اس وقفہ کو طویل سمجھے تو طویل ہے،  اور اگر دیکھنے والا اسے اختصار پر محمول کرے، تو وہ مختصر ہے، اور اگر تسمیہ کے بعد چھری تیز کیا ، پھر بغیر تسمیہ کے ذبح کیا ، تو حرام ہے، اور اگر بکری کو لٹا کر تسمیہ پڑھا، پھر ذبح سے پہلے وہ اٹھ کھڑی ہوئی، دو بارہ اسے لٹا کر ذبح کر دیا، اور تسمیہ نہیں پڑھا، تو وہ ذبیحہ حلال نہیں ہے،(فتاویٰ شامی/ج: 9/ ص: 366)  بدایع الصنائع : ج/4 : ص172 :اگر ذابح نے تسمیہ پڑھ کر چار میں سے صرف دو ہی رگ کاٹا اور چھری دوسرے کے حوالہ کردیا ، پھر دوسرے شخص نے بغیر تسمیہ کے بقیہ دو یا ایک رگ کاٹی ، تو وہ ذبیحہ حلال نہیں ہے، ( شامی )
تیسری چیز یہ ہے کہ جانور کے گلے پر چھری چلانے کے معاً بعد اس کی کھال اتارنے لگتے ہیں ، اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار نہیں کرتے ، یہ بات شریعت کو ناپسند ہے، اسلئے کہ ابھی اس کے تن بدن سے جان پوری طرح نکلی نہیں ہے ، اور ہم اس کی کھال اتارنے لگتے ہیں، گویا ہم اسے اذیت پہونچا رہے ہوتے ہیں، اور یہ بات شریعت کیسے گوارہ کر سکتی ہے، اسلئے اس کا خاص خیال رکھا جائے ، اور جلدی نہ کی جائے ، فتاویٰ بزازیہ حاشیہ فتاویٰ ہندیہ:ج/6: ص308: بدایع الصنائع : ج/4 :ص /223: قربانی میں جانور بنانے کا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے، قربانی کے دنوں میں قصاب ملتے نہیں ، اور اگر بالفرض مل بھی جائیں تو بنانے کی اجرت اس قدر زیادہ مانگتے ہیں کہ دینا مشکل ہوتا ہے ، ایسی صورت میں آس پڑوس کے دو ایک غریب پڑوسی کو تعاون کیلئے بلا لیتے ہیں ، اور بنانے کے بعد انہیں خاصی مقدار میں گوشت
عنایت کر دیتے ہیں، کہ بیچارہ غریب پڑوسیوں کا بھی بھلا ہو جاتا ہے ، اور اس کا کام بھی نکل آتا ہے، لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ شرعی حکم یہ ہے کہ قربانی کی کھال اور اس کا گوشت بنانے والوں کو اجرت میں نہیں دے سکتے، اور اگر کسی نے ایسی چالاکی کی، تو جس قدر گوشت اسے مزدوری میں دی  ہے، تو اسے اتنی رقم کا صدقہ کرنا لازم ہے، بدایع الصنائع : ج/4 :ص /225 : اس کی صحیح اور آسان شکل یہ معلوم ہوتی ہے، کہ اگر جانور بنانے میں آدھا دن صرف ہوتا ہے، تو ایک عام مزدور کے نصف یوم کی مزدوری اسے دے دی جائے، اور اگر پورا دن لگتا ہے، تو اسے پورے یوم کی مزدوری دے دی جائے، پھر اس کے بعد جس قدر گوشت دینا منظور ہو، دیا جائے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،
چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ قربانی کے بعد گوشت کو کیسے بٹوارہ کیا جائے، کیا شرکاء کی رضامندی سے اپنی چوائس کے مطابق ہم آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں، یا باہم اندازہ و تخمینہ سے بٹوارہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ بعض علاقوں میں آج بھی قربانی کے گوشت کو اسی طرز پر تقسیم کیا جاتا ہے، لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم میں  شرکاء میں سے ہر فرد کو اس کے حصے کے بقدر وزن کر کے برابر دینا لازم ہوتا ہے، اندازہ و تخمینہ سے بٹوارہ کرنا جائز نہیں ہے، بدایع الصنائع : ج/4 :ص /401  : اسلئے کہ اس میں ربا کی دونوں علتیں قدر اور جنس پائی جاتی ہیں ، لہذا اس طرح تقسیم کرنا حرام ہے،
واضح رہے کہ اس میں قطعاً یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ہم نے تو اپنی مملوکہ چیز اس کے لئے حلال کیا ہے، اور دوسرے نے اپنی مملوکہ چیز ہمارے لئے جائز قرار دیا ہے، پھر شریعت اسے ناجائز کیوں کہتی ہے، تو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی چیز میں حرمت دو وجہوں سے آتی ہے، کبھی حرمت حق العبد کی وجہ سے ہوتی ہے ، تو اس صورت میں بندہ اگر اپنے حق سے دستبردار ہوجائے ، تو اس چیز سے حرمت ختم ہوجاتی ہے، جیساکہ مثل مشہور ہے، میاں بیوی راضی تو کیا کرے قاضی: کبھی حرمت حق اللہ کی وجہ سے ہوتی ہے، اس صورت میں بندہ کی باہمی رضامندی کوئی معنی نہیں رکھتی، جیسا کہ مسئلہ ہذا ،
پانچویں چیز یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے سامنے کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے، اسلئے کہ اس کی وجہ سے کئی مفاسد رونما ہوسکتے ہیں، اول تو اس سے دوسرے جانوروں کو اذیت ہوتی ہے، بھلا اسلام کب اس کی اجازت دیتا ہے کہ اسے تکلیف پہونچائی جائے، دوسری چیز یہ ہے کہ اس سے وہ خوف زدہ ہوکر دہشت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، : تیسری چیز یہ ہے کہ اس سے دوسرے جانوروں کے بدکنے کا قوی اندیشہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان لغزشوں سے محفوظ فرمائے آمین،