منیر احمد ٹمکور
09880287960

افریقہ کو ایک زمانے تک تاریک براعظم کہا جاتا رہا۔ یا کالے لوگوں کا۔ حالانکہ اس نے دنیا کو اولین تہذیب و تمدن سے نوازا مصر کے فرعونوں کے دور کی نشانیاں آج بھی ماہرین کو حیران کر رھی ھیں۔ شمالی افریقہ نے یورپ کو ، اس کو جو کہ علم کی روشنی سے دور بہت دور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اندلس یا اسپین پر قبضہ کرنے کے بعد علم وساینس کی روشنی عطاء کی۔افریقہ کے اندرون میں ٹمبکٹو میں بھی علم فضل کے چراغ روشن رہے۔ یہاں اسلام کی اولین مساجد میں سے ایک موجود ہے جو کہ کیچڑ سے تعمیر کی گئی ہے اس کے مقامی أمیر یا باادشاہ نے اسکی تعمیر کی تھی جس نے اسلام قبول کیا تھا اسلام کے اولین دور میں تعمیر کی گئی یہ ایک عظیم الشان مسجد ہے جسے سال میں ایک بار پھر کیچڑ تھوپ کر اس کی حفاظت اور تجدید کی جاتی ہے۔ اسکو یونیسکو نے دنیا کی ایک اھم ترین وراثت کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اسی افریقہ کے شمال میں قیروان تیونس میں دنیا کی اولین یونیورسٹی آج بھی موجود ہے۔ جس کی تعمیر ایک خاتون نے کی ۔

اسلام حضور صلی االلہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی اپنی رحمتوں سے افریقہ کو روشن کرنے لگا تھا جبکہ حبش کے بادشاہ نجاشی نے اسلام قبول کر لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شمالی افریقہ کے علاوہ اس براعظم کے سارے مشرقی  ساحلی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلتا چلا گیا۔ اسلام کے اولین اور اہم علمائے کرام نے یہاں جنم لیا۔ دل کی گہرائیوں میں ڈوب جانے والی قراءت ، روحوں کو بیقرار کرنے  والی عشق میں ڈوبی ہوئی نعمت پڑھنے والے بے اختیار رلا دینے والے لوگوں کو یہاں آپ دیکھیں گے۔ عربوں کے دنیا پر بیشمار احسانات ہیں۔ انھوں نے وہ اعلی ؤ عرفی   تہذیب و تمدن عطاء کیا جس کا اثر صدیوں سے سارے عالم کو سیراب کر رہا ہے۔  اسی تہذیب نے دنیا کی تین بڑی زبانوں کو جنم دیا۔  افریقہ کے ساحلوں میں سواحلی، بر صغیر ہندوپاک میں اردو اور مشرق بعید کے ملیشیا انڈونیشیا وغیرہ میں مالے۔ جس طرح عربوں نے فارسی کو ایک انتہائی اہم ؤ اعلی اسلامی زبان بنا دیا جس کی وہ اعلی درجے کی شاعری جس نے ساری دنیا کو دیوانہ بنا رکھا ہے  وہ صوفیانہ کلام وہ عشق مجازی وعشق حقیقی کی کیفیات کس کس کا ذکر کیا جائے۔  اسی طرح سواحلی، اردو اور مالے بھی اہم ترین اسلامی زبانیں بن گیںء۔ اسلام کا وہ اعلی معیار کا ادب ، فقہی احکام، مسائل، قرآن مجید واحادیث وغیرہ کا سارا ذخیرہ ، وہ جاہ و جلال و جمال وہ شاعری آن زبانوں کی زینت بن چکے ہیں ۔  اس سے کروڑوں لوگ فایدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کا اثر  گجرات کے ساحلی علاقوں پر بھی پڑا تھا ۔پہلے یہاں کے   چند ساحلی علاقوں میں سواحلی بولی جاتی رہی ہے۔

آج افریقہ کے سات ممالک کی سرکاری زبان  سواحلی ہے اور دوسرے دس ممالک میں بھی  عوام کی اکثریت بولتی ہے۔ پندرہ کروڑ سے زیادہ تعداد آج اس زبان کے بولنے والوں کی ہے۔  تمام مشرقی افریقہ کے  ساحلی ممالک مسلمانوں کے تھے انتہائی ایماندار اور خوشحالی سے بھرپور۔ پر امن طریقے سے لوگ یہاں ذندگی گذار رہے تھے۔جب واسکوڈی گاما افریقہ کے مغربی ساحلوں   سے لگے ہوے سفر کرتے کرتے مشرق کے ساحلوں کے ممالک  تک پہنچا تو  زنجبار کے مسلمان ملاحوں کی مدد سے ہی وہ ہندستان کے کیرلا کے ساحلوں پر اترا۔ ورنہ اسے ہندوستان کا سمندری راستہ معلوم نہیں تھا۔   وہ جب واپس ہوا تو جن جن مسلم ممالک سے وہ گذرتا رہا وہاں کی خوشحالی دیکھتا رہا۔ حکومتوں کے فوجی حالات کا بھی جائزہ لیتا رہا۔ اس کی کہانیاں یورپ بھر میں مشہور ہو گیںء۔  یوروپی قوموں نے جن میں انگلینڈ جرمنی ہالینڈ پرتگال اسپین فرانس سبھی شامل تھے    پہلے تو جہازوں کے ذریعے تجارتی طریقے اپنائے پھر جہازوں پر توپیں نصب کرنے کے بعد ساحلوں سے بمباری کر کے ان ممالک پر قبضہ کرلیا اور  مال و دولت وغیرہ سب کچھ لوٹ لیا ان ممالک کو اپنی نو آبادیاں قرار دے دیا۔ جو اسلامی ممالک انتہائی ایماندار، دولت مند اور خوش حال تھے آب وہ غلام بنا دیے گئے۔ عوام بے حد غریب ہو گیے ۔ لٹیروں نے اپنے ممالک کو اس طرح لوٹی ہوئی دولت سے خوشحال بنا دیا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں ان لٹے پٹے برباد شدہ ممالک کے غریب روزی روٹی کمانے کے لئے روزگار کی تلاش میں ان  یورپی  ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے بن گیے یہ دیکھ کر ان ممالک نے اپنے دروازے بندکر لیے لیکن چوری چھپے ہجرت کا یہ سفر جاری  رہتا ہے۔ پرانے جہازوں کے ذریعے پرانی کشتیوں کے ذریعے سمندروں کی بلند ترین لہروں کو کھیتے ہوئے ، طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی اور موت کا سفر۔ ایک طرف ٹوٹے ہوئے جھونپڑے بھوک پیاس کے ماحول دوسری جانب ایک اچھی زندگی کے خواب، ایک طرف اپنا خاندان، اپنی مرضی، اپنی روایات، تہذیب و تمدن زبان دوسری طرف ایک جنت کے خواب درمیان میں سمندری موت کا سفر۔ سب کا مقابلہ کرنے کے بعد منزل پر پہنچ بھی گیے تو بالکل نیا معیار نیا ماحول وہی غلامی اور ایک نیا سفر۔

عبدالرزاق گورناو نے افریقی لوگوں کی اسی جدوجھد کو ، رزق کے لئے، اپنے اہل وعیال کو کھلانے کے لئے سب کچھ تج کر ذندگی اور موت کا سفر طے کرکے آنے والے لوگوں کے سجے سہانے خوابوں کی کہانیوں کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ یہ تہذیبی اقدار مذہبی امور کے ٹکراؤ کی دلدوز کہانیاں ہیں دلوں میں درد کی لہریں اٹھانے والے فسانے۔ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنویں میں ڈال دیا گیا تھا۔اسی طرح کے انہیں اندھیرے کی داستانیں یہ ہیں اس نے مقامی پرانی روایات ، ادب اور نسخوں کا سہہارا بھی لیا۔ انہیں اپنے ادب میں سمویا۔

جو ممالک آزاد تھے وہ غلام بنا لیے گئے انہیں غلامی کی زنجیروں سے جکڑے عوام کی کہانیاں عبدالرزاق گورنا کا موضوع ہیں ۔ عبدالرزاق گورناو ایسے ہی ایک افریقی ملک زنجبار کا باسی ہے زنجبار افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ آس کے ساحلوں سے لگے بحر ہند میں واقع ایک جزیرہ میں عبدالرزاق گورناو 1948 میں پیدا ہوا آگے چل کر زنجبار تنزانیا میں شامل ہو گیا ہے۔ جس کا صدر مقام دارالسلام ہے۔ یہ علاقہ پہلے جرمنی کے قبضے میں تھا جنگ عظیم کے بعد اس پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا ۔ 22 سال کی عمرمیں وہ انگلینڈ گیا ، یونیورسٹی آف کینٹ سے پی ایچ ڈی کی ۔ وہیں پروفیسر کی ملازمت کی اور ریٹائرمنٹ کی۔ ابتدا میں سواحلی زبان میں لکھا۔ جواہرالبحر 2001 اس ناول نے اس کو بین الاقوامی ادب کے مقام پر لے آیا۔ اس کی ناولوں کے ایک ایک عنوان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زخموں کو کرید رہا ہے۔۔ paradise , pilgrims way, memory of departure. Desertion وغیرہ اس نے دس سے ناول انگریزی میں لکھے۔ بیباکی، صاف گوئی ، حق گوئی نے اس کو دنیا کے اعلی درجے کے مصنفین کی فہرست میں شامل کیا۔ اس طرح2021 کا نوبل انعام برائے ادب پانے والے تنزانیہ کا پہلا اور افریقہ کے دوسرا سیاہ فام ادیب بن گیا یہ انعام 4.14 ملین ڈالر کا ہے تقریباً چار ارب روپے کا ۔ اس سے پہلے مصر کے نجیب نے بھی ادب کا نوبل انعام حاصل کیا تھا۔ آس طرح عالمی ادب میں مسلمانوں کا نام روشن کرنے والی دوسری شخصیت ہے۔ اب تک مغربی دنیا کے مصنفین ھی اسکو حاصل کرتے رہے۔ خصوصاً انگریزی زبان کے لکھنے والے انگریزی زبان کی پہنچ عالمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر انگریزی زبان جاننے والے اپنی مادری زبان کی بجائے انگریزی میں لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گورناو نے سواحلی زبان سے انگریزی ادب میں لکھنا شروع کیا۔ رفیوجی جس کو پناہ گزین کہا جاتا ہے اس کی مجموعی حالت اس کا درد اس کی تکالیف کا اظہار درد بھرا اظہار وہ لوگ جن کو اسی مغربی دنیا نے رفیوجی بنایا ان کے ملکوں پر حملے کر کے ان کو تباہ وبرباد کر کے۔ مغربی ممالک کے پیدا کردہ ان انسانوں کے حقوق کی بے دردانہ پامالیوں کے مسایل پر انتہائی ایمانداری سے بیباکی سے اس نے لکھا دل کی گہرائیوں سے لکھا۔ کسی ڈر خوف سے آزاد رہ کر لکھا۔ ایک دنیا کو آینہ دکھلایا۔ ان تحریروں نے بڑا تہلکہ مچادیا۔ ا س نے انسانیت نواز عالمی مسائل پر مسلسل لکھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لکھا۔ اسی درد بھرے لہجے غم آگیں ، تحریروں نے عبدالرزاق کو عالمی سطح پر نقادوں نے شیکسپیئر کا ہم پلہ ادیب گردانا۔ اسطرح اس نے اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ یہ ثابت کیا کہ ادب کسی ملک کسی بھی قوم و مقام کی جاگیر نہیں ۔ یہ عالمی میراث ہے ۔