یہ دنیا کب سے ہے اورکب تک رہے گی ، اِس بات کا اندازہ بھی لگانا محال ہے۔ پھِر بھی قیاس آراء لوگ قیاس آرائی کرتے ہیں۔ اب قیاس تو قیاس ہی ہوتا ہے۔ نتیجہ مثبت میں نکل جائے تو خود فریبی کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، اگر نفی میں نکلے تو کبھی بےحسی کا مظاہرہ تو کبھی بےشرمی کی نمائش۔ جو لوگ مشاہدات کی بنا پر باتیں کرتے ہیں وہ کامیابی کے زینے کو چڑتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ اس بات کا اعلان کریں یا نہ کریں۔ مگر تاریخ اُنہیں اپنے صفحات کا حصّہ بناتی رہتی ہے۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اُسے لوگ توڑ مروڑ کر اپنی فطرت کے حساب سے آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت کی کسوٹی پر وہ فیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ بنانے سے نہیں بنتی، وہ تو تاریخ ساز ہستیاں اپنے نقشِ قدم سے رقم کر جاتے ہیں اور بعد والے اُس سے ہی راستے پاتے ہیں۔ ہر دور میں عوام و خواص میں سے تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں ، جو اپنی صلاحیت اور عقل و علم سے ایک کائنات بنا کر چلے جاتے ہیں ۔ بھلا ہو ہمارے دور کا جہاں عوام کی بھی بات ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ وہ باتیں اکثر بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مگر کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو عام سی دکھتی ہیں مگر ہوتی بہت خاص ہیں۔
ایسے ہی تھے مرحوم فصاحت حسین رضوی۔ اُنہیں مرحوم کہنے کو دِل تو نہیں کہ رہا ہے، پر مشیت کا فیصلہ ہے تو ماننا ہی پڑے گا، ابھی کل ہمارے بیچ تھے اور آج نہیں ہیں، کیونکہ معاملہ قضاء و قدر کا ہے اور ہم اُسکے آگے کچھ نہیں۔ بہر حال مسئوف اب جوار رحمت میں سکونت پذیر ہیں تو مرحوم تو کہنا ہی پڑے گا۔
میں اُنھیں بچپن سے جانتا ہوں، عمر میں وہ مجھ سے اتنے بڑے تھے جیسے باپ بیٹے کی عمر میں فاصلھ ہوتا ہے، مگر اس قدر پیش آتے تھے جیسے میں انکا ہم عمر ہوں، رشتے اور عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے جس بےتکلفی کا سلوک کرتے تھے وہ اپنے آپ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اُنکے والد مرحوم احمد حسین ( احمد بابا ) کو بھی دیکھا، جب انجمن گلدستہ ماتم کا ماتمی جلوس گشت پر نکلتا تو نظم و ضبط کی ذمےداری انہی کے ہاتھوں میں ہوتی، اُنکے رومال کا ایک اشارہ پورے دستے کو روک اور چلا دیتا تھا۔ لگتا تھا جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کو اشاروں سے کمانڈ کر رہا ہو۔ باپ کی انجمن پر فداکاری کا ورثہ مرحوم فصاحت حسین کی رگوں میں بہتے لہو میں ایسا جلوہ افروز ہوا کہ عمر کے ہر پڑاؤ میں کھل کر آشکار ہوتا رہا۔ چاہے صحتمندی کا دور رہا ہو یا بیماری کا۔ ابھی کچھ مہینے پہلے میں اپنے وطن ہلور گیا تھا تو ملاقات ہوئی تھی، عمر اور بیماری نے جِسم کو کافی نحیف کر دیا تھا مگر جذبہ توانا اور جوان تھا۔ کیا پتہ تھا یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔
انسان کا جوہر تب سمجھ میں آتا ہے جب زبان خلق سے چرچہ ہوتا ہے۔ ملازمت کے دوران میری تعیناتی بل رامپور ضلع میں ہوئی، پپری چندہ پور میں میرا نہر کا ایک پروجیکٹ چل رہا تھا، اس لیے قریب قریب روزآنہ وہاں جانا ہوتا تھا، اس آنے جانے کی وجہ سے وہاں کی عوام سے رابطہ ہو گیا۔ جب لوگوں نے جانا کہ میرا تعلق ہلور سے ہے تو مرحوم کا ذکر چل نکلا، ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی نام ہوتا تھا، فصاحت رضوی صاحب۔ آپ کا تعلق محکمہ آبپاشی سے تھا، اتفاق سے میرا بھی, گاؤں میں آبپاشی کس نعمت کا نام ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ دِن رات کبھی بھی سینچای کی ضرورت پڑی تو وہ فوراً تیار ہو جاتے، یہ بھی پتہ چلا کی سیزن میں وہ چھوٹے کسانوں کو بڑے کاشکاروں پر فوقیت دیتے تھے، مگر اپنے حُسنِ کردار سے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے تہے۔ جو شخص بیسوں سال پہلے ملازمت سے سبکدوش ہوکر چلا آیا ہو اُسکا نہ صرف ہر زبان پر نام ہو بلکہ ایک بار دیکھنے اور ملنے کی تمنّا ہو یہ بہت کم دیکھا گیا ہے۔ مگر جو انسانی فطرت کے تحت اپنی کارکردگی نبھاتے ہیں وہی امر ہو جاتے ہیں۔
مرحوم ایک باصلاحیت اور پائے کے شاعر تھے، مگر انکساری اتنی کہ کبھی اپنے کو شاعر نہیں گردانتے تھے۔ ہزاروں شعر کے خالق ہوتے ہوئے بھی اپنے کو خودنمائی سے محفوظ رکھتے تھے۔ وہ چلتے پھرتے دیوان تھے، ہر شعر ازبر تھا، اور جیسا موقع ہوا فوراً اپنی کاوش کو سامنے رکھ دیا، مگر یہ بھی کہتے رہتے کہ میں شاعر نہیں ہوں، سچ بات تو یہ ہے کہ ایسی شخصیت مجھے اُنسے نہ پہلے دکھی اور شاید آگے بھی نہ دکھائی دے۔ اُنکی شاعری کا ایک خاص اسلوب جو مجھے نظر آیا وہ طنز تھا مگر اُسے مزاح کی چاشنی میں ایسا ڈبوتے تھے جیسے کڑوی دوا پر مٹھاس کی کوٹنگ ہوتی ہے۔ پتہ نہیں اُنکی کاوشوں کا کہیں ریکارڈ ہے یا نہیں۔
مرحوم نے جو وراثت اپنے والد سے پائی تھی وہ سب اُنکے بچوں میں بھی ٹکڑے ٹکڑے میں سمائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر وضاحت حسین میں علم و ادب اور قلم کی مضبوطی جھلکتی ہے تو نفاست حسین میں لیڈرشپ اور خدمتِ خلق کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ شباھت حسین جہاں ایک کامیاب وکیل ہیں وہیں ہر کس و ناکس کی مدد کو حما تنگوش رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں تیسری پیڑھی میں بھی وہی شمع فروزاں ہیں جو خاندانی روایت کا مظہر ہے۔ میں سب کو تو نہیں جانتا مگر عبّاس میاں میں ایک اُبھرتے ہوئے بہترین صحافی کی رونقیں جلوہ افروز ہیں۔ عادات سبھی وہی جو اُنکے گھر کی پہچان ہے۔ بس یہ میں اپنے مشاہدے سے کہ سکتا ہوں کہ کوئی کسی بھی فیلڈ میں ہو مگر وطن پرستی اور انجمن گلدستہ ماتم کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں سکونت بخشے اور اُنکے وارثین کو صبر جمیل عطا کرے۔
آمین

مہدی عبّاس رضوی