عبدالغفار صدیقی
9897565066

عبدالغفار صدیقی


رواں مہینے میں تین جمعے دو الگ الگ شہروں کی تین مختلف مساجد میں ادا کرنے کا اتفاق ہوا۔تینوں مساجد شہر کی تھیں ،اگر چے وہ میٹرو پولیٹن شہر تو نہیں تھے ،لیکن انتظامی اعتبار سے وہ شہروں میں ہی شمار ہوتے ہیں ۔یہ شہر مغربی اترپردیش کے ہیں ۔اس میں ایک شہر مشہور مجاہد آزادی حضرت مولانا حفظ الرحمان ؒ کے نام سے مشہور ہے۔دارالعلوم دیوبند،اور مظاہر العلوم سہارن پوریہاں سے تقریباً ڈیڑھ سوکلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں ۔ ان اداروں کے اثرات یہاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ایک امام صاحب نے خطبہ ٔ جمعہ سے پہلے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ یہ عذاب ہم پر ا س لیے آرہے ہیں کہ ہم نے غیروں کا لباس پہن لیا ہے ۔ہم پینٹ شرٹ پہنتے ہیں ،ہمیں کرتا پاجامہ پہننا چاہئے یہی سنت کا لباس ہے۔دوسرے امام صاحب نے گرمی کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ زکاۃ روک لیتے ہیں تو اللہ پاک اپنی بارش روک لیتے ہیں ،یہ امام الحمد للہ مفتی ہیں ۔ایک امام صاحب جمعے کی سنتیں بیان کررہے تھے انھوں نے جہاں باقی سنتیں بیان کیں وہیں زیر ناف کے بال صاف کرنے کی سنت بھی بیان کی جسے سن کر کچھ لوگ زیر لب مسکرا نے لگے ۔شاید انھی ائمہ کو سامنے رکھ کر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا :


قوم کیا چیزہے قوموںکی امامت کیاہے
اس کو کیا جانیں بے چارے دو رکعت کے امام


اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قوم کی امامت کن لوگوں کے ہاتھوں میںہے ۔کم و بیش یہی صورت حال پورے ملک کی ہے۔دیہات کی مساجد کا حال تو اس سے بھی زیادہ برا ہوگا۔مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ یہ مسائل بیان نہ کیے جائیں البتہ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ ہم جمعہ کے خطبوں میں کس قسم کے موضوعات پر خطاب فرمارہے ہیں ،دوسری قومیں سیادت و حکومت کے طور طریقوں پر بات کررہی ہیں ۔ان کے یہاں نوجوانوں کو حکومت چلانے کی تربیت و ٹریننگ دی جارہی ہے ،وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے دنیا پر حکومت قائم کررہے ہیں۔دنیا صنعتی انقلاب کے اوج ثریا پر پہنچ رہی ہے۔موبائل فون کے پروسیس کو ناقابل یقین حد تک رفتار پر لے جایا جا رہا ہے،کمپیوٹر کی دسویں جنریشن پر کام ہورہا ہے،چین مصنوعی چاند اور سورج بنا رہا ہے ،جہاں وہ نئی بستیاں بسائے گا۔امریکہ مریخ پر آباد ہونے جارہا ہے اور ہم کرتے پاجامے ،داڑھی ،ٹوپی ،عرس و قوالی،نیاز،تبرک اور غسل و وضو کی سنتوں میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں ۔گزشتہ ستر سالوں میں ہم قوم کو وضو کرنا نہیں سکھا پائے تو حکومت چلانا کب سکھائیں گے ؟


پینٹ شرٹ کو غیروں کا لباس کہہ کر مکروہ و حرام کہہ کر پہننے والوں کو احساس جرم میں مبتلا کیا جارہا ہے ۔جب کہ وہ کوئی جرم ہے ہی نہیں۔نفسیاتی طور پر مجرم فرد کوئی تعمیری رول ادا نہیں کرسکتا اور جب قوم کی اکثریت مجرم گردان لی جائے تو کسی خیر کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے ۔اسی کے نتیجے میں ،میں دیکھ رہا ہوں کہ جاہل اور ان پڑھ نوجوان بظاہر ایسی شکل وشباحت بنا رہے ہیں،جو افغانستان کے طالبان کی ہے ۔مجھے بتائیے یہ تصویر بنا کر آپ ملک میں اسلام اور مسلمانوں کی کیا تصویر بنانا چاہتے ہیں۔اس پر مزید یہ کہ جیب میں قلم کی جگہ مسواک ہے اور ہاتھ میں لیپ ٹاپ کی جگہ مالا ہے ۔کیا یہی اسلامی لباس ہے ۔کیا واقعی لباس کے تعلق سے اسلام نے یہی تعلیم دی ہے یا اس کی کہیں حوصلہ افزائی کی ہے ۔کیا مشابہت قوم کا صرف یہی مطلب ہے ۔اگریہی مطلب ہے تو پھر یہ بھی بتائیے کہ مکہ کے مسلمانوں اور کافروں کے لباس میں کیا فرق تھا؟کیا اسلام قبول کرنے کے بعد کسی خاص طرز کا لباس پہنایا جاتا تھا؟کوئی الگ سے درزی کی دوکان تھی جہاں وہ لباس سلوایا جاتاتھا ؟کیا لباس تقویٰ کا یہی مفھوم ہے کہ اسے دیکھ کر برادران وطن خوف کھانے لگیں آپ بھلے ہی خدا سے نہ ڈرتے ہوں۔


مجھے اس حدیث پر کوئی شک نہیں اگر چے وہ صحیحین میں نہیں ہے کہ زکاۃ کی عدم ادائیگی سے بارش روک لی جاتی ہے ۔لیکن اس حدیث کا موقع ومحل کیا ہے ؟آج کے دور کا طالب علم اگر مفتی صاحب سے یہ معلوم کرلے کہ حضرت چیراپونجی میں لگاتار بارش کیوں ہوتی ہے کیا وہاں کے لوگ زکاۃ ڈھائی فیصد کے بجائے پانچ فیصد دیتے ہیں ۔یا بمبئی میں بارش کی کثرت کیوں ہے ؟کیا آسام کے سیلاب زدگان کی یہی خطا ہے کہ انھوں نے زکاۃ پوری ادا کردی ہے۔کیا واقعی زکاۃ کا سب سے اہم پہلو یہی ہے ؟یا زکاۃ کے اجتماعی نظم ،زکاۃ نکالنے کے باوجود مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی غربت ،مصارف زکاۃ سے قوم کی نا واقفیت زیادہ اہم موضوعات ہیں جن پر معلومات فراہم کی جانی چاہئے ۔کیا جمعے کی سنتوں سے زیادہ اہم جمعے کی نماز کے مقاصد زیر بحث نہیں آنے چاہئے ؟کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس وقت ہم عبادات کے مقاصد سے غافل ہوگئے ہیں ،جس کے سبب ہماری عبادتیں بے ثمر و بے اثر ہوکر رہ گئیں ہیں۔
بھارت کے مسلمانوں کی عجیب صورت حال ہے ۔وہ تعلیم کے نام پر شیخ بیمار کی مرتب کردہ کتاب پڑھتے ہیں ،وہ مشورے کے نام پرنماز سے غیر حاضر رہنے والوں کی فہرست سازی کرتے ہیں ۔بڑی اچھی بات ہے ۔نماز پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہئے ۔بے نمازیوں سے ملاقات کرکے انھیں نماز کی طرف راغب کرنا چاہئے ۔لیکن ایک مسجد کا حلقہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو، دوسو گھروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔کیا ستر سال میں یہ کام پورا نہیں ہوسکا ۔کیا واقعی محلے کا طول و عرض اس قدر زیادہ ہے کہ ایک جماعت اس کااحاطہ ستر سال میں بھی نہیں کرپائی ؟


میرے عزیزو!وقت کی خبر لو۔حالات حاضرہ پر نظر رکھو۔دوسری قوموں سے سبق لو ۔مشابہت صرف لباس میں نہیں بلکہ اطوار میں بھی ہوتی ہے ۔اپنی شادی بیاہ ،مرنے جینے ،کی رسوم اور تیوہاروںپر نظر ڈال کر دیکھو اور جائزہ لو اغیار کے کون کون سے طریقے تم نے داخل شریعت کرلیے ہیں۔داڑھی،ٹوپی اورلباس کے علاوہ بھی اسلام ہے ۔اسلام مکمل نظام حیات ہے ۔کبھی اس کے معاشی نظام پر بھی بات کرو،کبھی اس کا تعلیمی نظام بھی زیر بحث لائو۔کبھی یہ بھی بتائو کہ اقتدارو حکومت کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے ۔حضور کی سنت بادشاہوں کو دعوت اسلام بھی ہے ،حضور کی سنتیں بدر،احد اور خندق میں بھی ہیں، کبھی اجتماعیت کے آداب بھی سکھائو،غسل کی سنتیں بیان کرنے والوکبھی محلے کی صفائی اور سڑکوں کے انکروچمنٹ کے بارے میں بھی اسلام کا موقف جانو۔بے نمازیوں کی فہرست سازی کرنے والو! کبھی اپنے پڑوسی کے گھر کا حال بھی جانو کہ وہ بھوکا تو نہیں سو رہا ہے ۔دینی مشورے میں محلے کے بے روزگار ،علاج سے معذور بیمار،علم سے محروم نوجوانوں اور وراثت سے محروم خواتین پر بھی مشورہ کرو۔زکاۃ روکنے پر بارش روکنے کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائو کہ اللہ نے وراثت کا کیا قانون بیان کیا ہے ۔مسلم نوجوانوں کو عربی لباس پہنانے والو!ان کو بغیر جہیز کی شادی اور بروقت شادی کے فائدے بھی بتائو۔کفار کی ہر چیز کو حرام کہہ کر ترک کرنے والو!اس کا متبادل بھی پیش کرو۔جو قوم اپنے اجداد کے تعلیمی وتحقیقی ورثے کی حفاظت نہیںکرسکتی اس کے مقدر میں غلامی لکھ دی جاتی ہے۔ضرورت ہے کہ ائمہ مساجد حالات حاضرہ سے واقفیت حاصل کریں اور اسلام کی مکمل تعلیمات عوام کے سامنے پیش کریں ۔اسلامی تعلیمات کا ایک چارٹ بنالیں ۔ہر ہفتے عوام کی موجودہ حالات کے تناظر میں رہنمائی کریں۔ہاں وضو و غسل کی سنتوں اور نماز وروزے سے متعلق امورومسائل جاننے کے لیے بھی اپنے دروازے کھلے رکھیں ۔جس کی ضرورت ہوگی وہ آپ سے سیکھ لے گا۔مگر خدا کے واسطے وقت ضائع نہ کریں ۔اپنے مقام و منصب کو پہچانیں۔قوم کو خواہ مخواہ احساس جرم میں مبتلا نہ کریں۔

مضمون نگار آزاد صحافی اور راشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ کے چیرمین ہیں۔