(افتخار امام صدیقی)
مدیر ماہنامہ شاعر بمبئی


حافظؔ کرناٹکی
دنیا کی ہر زبان کی طرح اردو میں بھی نظریات و رجحانات اور مکتبہ فکر کے ساتھ ساتھ دبستانوں اور اسکولوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ دہلی اسکول، لکھنؤ اسکول، عظیم آباد اسکول، رام پور اسکول اور آگرہ اسکول۔


دہلی، لکھنؤ اور عظیم آباد اسکولوں کے نام سے کم اور دبستانوں کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ رام پور کے لیے بھی اسکول کا نام کم ہی سننے میں آتا ہے۔ البتہ آگرہ اسکول ہمیشہ اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس اسکول کے ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر علامہ سیماب اکبرآبادی تھے۔ جنہوں نے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ جاری کیا، جسے اس کے گھرانے کے لائق افراد و اشخاص نے موروثی وراثت کی طرح آج تک سنبھال رکھاہے اور اردو ادبی رسالوں کی وراثت میں قابل قدر اضافہ کیاہے۔


سیماب اکبرآبادی کے لائق فرزندحضرت اعجاز صدیقی نے خاص طور سے ماہنامہ شاعر کو اپنے خاندان کی وراثت سمجھ کر اس کی جی جان سے حفاظت کی اور اسے اردو ادبی رسالوں کے قلب میں ادبی اور تخلیقی چراغ کی طرح تادم آخر روشن رکھا۔ اس کے بعد ان کے لائق فرزند افتخار امام صدیقی نے اس وراثت کو قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال کر رکھا۔ اور اردو ادبی رسائل کے قلب میں روشن اس چراغ کی لو کو کبھی کم نہیں ہونے دیا۔ اس کام میں ان کے بھائی ناظر نعمان صدیقی نے ان کا تعاون کیا، گاہے ماہے حامد اقبال صدیقی نے بھی اپنی حمایت کا احساس دلایا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیماب اکبر آبادی تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے، مگر ان کے صاحب زادے اعجاز صدیقی نے اپنا و طن چھوڑنا گوارہ نہیں کیا اور وہ بمبئی میں جم گئے اور ماہنامہ ’’شاعر‘‘ کی بنیادوں اور اس کی روایتوں اور اپنے اجداد کی وراثت کو مضبوط و ثروت مند بنانے میں اپنے آپ کو کھپادیا۔


سیماب اکبرآبادی استاد شاعر تھے، ان کی استادی کا ہر کوئی قائل تھا۔ اور ان کے شاگردوں کا بھی ایک بڑا حلقہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جس گھرانے سے سیکڑوں لوگوں نے شعر و ادب کا درس لیا خود اس کے گھر کے چراغ شعر و شاعری کی آگ سے کیوں کر محروم رہتے سو اعجاز صدیقی نے بھی خوب شاعری کی اور کلاسک شعری ادب سے فائدہ اٹھاکر اپنی شاعری کا سکہ ایسا جمایا کہ ادب میں اپنا مقام بنالیا۔ ان کے لائق و فائق فرزند افتخار امام صدیقی نے بھی اپنی خاندانی وراثت کو سنبھالنے اور اسے ادبی وراثت کی روح سے ہم آہنگ کرنے میں بڑی محنتیں کیں۔ انہوں نے شاعر کو اپنی زندگی کا محور بنالیا۔ شاعر ان کے لیے صرف ایک رسالہ ہی نہیں تھا، یہ ان کے لیے ان کے دادا جان کی وراثت اور ان کے والد صاحب کی محنت کا شجر تھا۔ اس شجر کی شادابی کے لیے ہر دکھ اٹھانا افتخار امام صدیقی کے لیے راحت جاں سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے اس شجر کو ثمر بار کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی، وقت اور حالات کی چلچلاتی دھوپ میں بھی اس کو شاداب رکھا۔ وقت کے طوفان کے سامنے ڈٹے رہے۔ تپتی زمین اور جلتے آسمان کے درمیان ماہنامہ شاعر کے لیے سایہ تلاش کرتے رہے، کیوں کہ اب زمانہ بدل چکا تھا۔ پہلے لوگ اپنے شاعروں اور ادیبوں کو سرآنکھوں پر بٹھاتے تھے، اپنے معیاری ادبی رسالوں کے لیے اپنی آمدنی کا ایک معقول حصّہ مختص کرتے تھے۔ اس لیے ادبی رسالوں پر بہار رہتی تھی۔ ادبی فضاؤں میں شعر و نغمے کے سرسنائی دیا کرتے تھے۔ علم و فن کے متوالے اس فضا کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔ اور اس فضا میں اپنی تخلیقی پرواز کے نئے جہان تلاش کیا کرتے تھے لیکن بعد کے زمانے بڑے ہوش ربا ثابت ہوئے۔ نئی نسل کے لوگوں کو اپنی ادبی اور علمی وراثت کی اہمیت کا احساس نہیں رہ گیا۔ وہ بزرگوں کی جمع پونجی پر گذارہ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ جیسے معیاری اور معتبر رسالے کی اشاعت میںرخنے پڑنے لگے۔ اسے بچانے کے لیے افتخار امام صدیقی کو سمجھوتوں پہ سمجھوتے کرنے پڑے۔ انہیں ماہنامہ شاعر کی رگوں میں زندگی کے لہو کی گردش کو زندہ رکھنے کے لیے ہر شمارے کے لیے اشتہار کے ساتھ ساتھ گوشوں کا اہتمام کرنا پڑا، اس کے باوجود اس رسالے کی اشاعت پر خدشات کے سائے لہراتے رہے مگر افتخار امام صدیقی نے یہ تو گوارہ کرلیا کہ وہ خود بھوکے سو رہیں گے مگر ادب کے دیوانوں کو ادبی خوراکوں اور شاعر کے متوالوں کو شاعر کے دیدار سے محروم نہیں ہونے دیں گے۔ ان کے اسی اعتماد اور ایقان نے ماہنامہ شاعر کی کبرسنی کو نوجوانی کی رعنائیوں سے ہمکنارکئے رکھا۔ وہ وقت کے ساتھ بوڑھے ہوتے گئے مگر ماہنامہ شاعر کو ہر پل جوان رکھا۔


میرا اور میرے بزرگ دوست اور بھائی افتخار امام صدیقی کا رشتہ بہت پرانا نہیں نیا بھی نہیں ہے۔ ہمارا اور ان کا رشتہ کچھ بارہ پندرہ برسوں پر ضرور محیط ہے، میں نے اردو زبان و ادب کے تئیں ایسی دیوانگی کسی شاعر اور ادیب میں نہیں دیکھی ہے، وہ جس چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے اس میں فرش سے لے کر چھت تک کتابوں اور رسالوں کے ڈھیر لگے رہتے تھے، کبھی کبھی انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ وہ صحت کی کمزوری اور پاؤں کی معذوری کے باوجود اتنا سارا کام کیسے کرلیتے ہیں؟ سچ ہے کہ آدمی کے اندر اپنے کام سے سچی لگن، محبت اور انہماک ہو تو وقت اور حالات کی ساری رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ میں جب بھی بمبئی جاتا تھا ان سے ملنے ان کے آفس پہونچ جاتا تھا۔ میں انہیں صحت و عافیت سے دیکھ کر خوش ہوجاتا تھا۔ اور وہ مجھے دیکھ کر خوش ہو جایا کرتے تھے۔ وہ محبت کرنے والے ایک مخلص و مہربان دوست اور نہایت دین دار انسان تھے۔ جب میں کرناٹک اردو اکادمی کا صدر تھا تو میں نے سوچا کہ انہیں بنگلور بلاؤں۔ ان کی صحت کا مجھے پورا علم تھا۔ پھر بھی ڈرتے ڈرتے میں نے انہیں دعوت دی، مجھے پورا یقین تھا کہ وہ معذرت کرلیں گے۔ مگر انہوں نے تو مجھے نہال کرنے کا ارادہ کررکھا تھا۔ لہٰذاوہ تیار ہوگئے اور بنگلور تشریف لائے، ہم سبھی انہیں اپنے درمیان پاکر بہت خوش تھے۔ اور ان کی اعلیٰ ظرفی دیکھے کہ وہ اپنے سفر کی پریشانیوں کو بھلا کر ہم سبھوں سے زیادہ خوشی کا اظہار کررہے تھے۔

حضرت افتخار امام صدیقی نے نہ صرف یہ کہ اپنی بے پناہ محبتوں سے مجھے نوازا بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازا۔ کئی سال پہلے جب میں ’’ہزار غزل‘‘ کے نام سے غزلوں کا ایک مجموعہ لانے کی سوچ رہا تھا تو انہوں نے ہی مجھے روکا کہ ابھی نہیں۔ ابھی اپنے ادب اطفال والے سفر کو اسی طرح جاری رکھیے بعد میں جب آپ کا دل چاہے گا وقتاً فوقتاً غزلوں کے مجموعے بھی شائع کروالیجئے گا۔ باالخصوص میری رباعیوں سے وہ بہت متأثر تھے۔ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ مجھے بچوں کے حافظ جی اور بڑوں کا حافظ کرناٹکی کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ میری رباعیوں کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ رباعی کے حوالے سے شاعر کا ایک شمارہ مختص کردیا۔ اور مجھ ناچیز کو رباعی مکھیا کے خطاب سے نواز دیا۔


ان کے کام کرنے کا انداز سب سے الگ اور نرالا تھا۔ وہ ’’شاعر‘‘ کے کم سے کم صفحات میں زیادہ سے زیادہ مواد کی سمائی کا جیسا ہنر رکھتے تھے اسی طرح وہ لوگوں کے دلوں میں اتر جانے کے ہنر میں بھی یکتا تھے۔ وہ جتنی عمدہ نثر، اور نثری جملے لکھا کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ عمدہ اشعار کہا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے میں روزانہ کم و بیش پانچ سات غزلیں کہہ لیتا ہوں۔ اس لیے آپ بسیارگوئی یا زودگوئی کا کوئی خوف مت پالیے، جس قدر نظموں،غزلوں اور رباعیوں کا نزول ہو بس اسے سمیٹتے جائیے۔ ان کی حوصلہ افزائیاں میرے بہت کام آئیں۔ ان کی موجودگی سے لگتا تھا کہ کوئی تو بزرگ دوست اور مخلص رہبر ہے جو شعر و ادب کی دنیا سے نہ صرف یہ کہ پوری طرح باخبر ہے بلکہ شعر وادب کے تناظر میں صائب رائے دینے کے بھی لائق ہے۔


یہ حیرت کی بات کہی جائے گی کہ افتخار امام صدیقی جسمانی طور پر بھلے سے معذورانہ زندگی جینے پر مجبور تھے، مگر ان کا ذہن نہایت تیز و تندتھا۔ ان کا تخلیقی بہاؤ بھی جاری تھا۔ اور وہ شعر و سخن سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی پہلی پسند غزل تھی۔ وہ غزلیں کثرت سے کہا کرتے تھے۔ آزادی کے سال یعنی ۱۹۴۷ئ؁ میں پیدا ہونے والے عمدہ شاعر اور لائق مدیر افتخار امام صدیقی بہت روشن دماغ انسان تھے۔ ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی تعصب نہیں تھا۔ وہ شعر و ادب کے سچے پارکھی اور کھرے انسان تھے نہ وہ تعریف کرنے میں تکلف اور کنجوسی سے کام لیتے تھے اور نہ تنقیدکرنے میں ہچکچاتے تھے، ان کا دل بالکل آئینہ کی طرح شفاف تھا۔ جو چیز انہیں جیسی دکھتی تھی یالگتی تھی اس کے بارے میں بلا تکلف اپنی رائے کا اظہار کردیتے تھے۔ ایک ان کے نہ ہونے سے آج ایسا لگتا ہے کہ جو بمبئی شہر اپنائیت کا گہوارہ تھا آج بالکل اجنبی بن گیا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کی طرح بے رحم، ہنگامہ خیز، تیز رفتار، اور بے مروت افتخار امام صدیقی اس تیز رفتار شہر کے قلب میں قلب مہربان کی طرح دھڑکتے تھے۔ ان کے نہایت مخلص، ہم درد اور غمگسار بھائی ناظر نعمان صدیقی پر کیا بیت رہی ہوگی اس کا تو اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ دونوں بھائی دوبدن ایک جان کی جیتی جاگتی مثال تھے۔


تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا

سچ مچ آج ادبی دنیا میں خالی پن، اداسی، اور تنہائیوں کا جو احساس پایا جاتا ہے، اس کی ایک اہم وجہ افتخار امام صدیقی کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور ادبی برادری کے ملال کا مداوا فرمائے………..آمین