ایم ودود ساجد 

M Wadood Sajid


سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک سرتاپا اردو بن کر زندگی گزارنے والے گلزار دہلوی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔۔۔ ان کا نام اردو ادب اور دہلوی تہذیب کا استعارہ بن گیا تھا۔۔۔ ان دونوں عناصر کو ان کی ذات سے الگ نہیں کیا جاسکتا تھا۔۔۔ ان کے انتقال سے یہ دونوں عناصر بکھر گئے ہیں ۔۔۔ معلوم نہیں کب تک یہ دونوں بھٹکتے پھریں گے۔۔۔ 


ہر ذی نفس کا یہی متعین انجام ہے۔۔۔ اس سے فرار ممکن نہیں ۔۔ 30 دسمبر 2017 کی شب ایک پروگرام میں 94 سالہ گلزار دہلوی سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ اس کے بعد کسی پروگرام میں ان سے ملاقات نہ ہوئی۔۔۔ باعتبارِ صحت وہ بہت ڈھل گئے تھے مگر روانیِ گفتار اُسی طرح باقی تھی۔۔میں ان کو “گلزارِ اردو” کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔۔۔اس پر وہ بہت خوش ہوتے تھے ۔۔۔جب میں کہتا تھا گلزارِ اردو آداب’ تو برملا گرجدار آواز میں جواب دیتے تھے ۔۔۔” میاں وعلیکم آداب۔۔” 


گلزار دہلوی کو جب بھی اسٹیج ملتا اپنے مخصوص انداز میں اپنے والد علامہ زار دہلوی’ پنڈت جواہر لعل نہرو’ مولانا آزاد’ مولانا حسین احمد مدنی’ مولانا عبیداللہ سندھی’ مولانا محمودالحسن اور اپنے وقت کی بڑی بڑی لاتعداد نابغہ روزگار شخصیات کی رفاقت ومصاحبت کا ذکر چھیڑدیا کرتے تھے۔۔۔ سلطان جی’ یعنی خواجہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء کے ذکرِ عقیدت کے بغیر تو ان کی کوئی گفتگو مکمل نہیں ہوتی تھی۔۔۔ وہ بولتے تو گویا علوم وفنون ادب کا آبشار جاری ہوجاتا۔۔۔۔ان کی اردو’ عربی اور فارسی آمیز نثر سن کر ایسا لگتا جیسے کوئی بہت عظیم الجثہ عالم خطبہ دے رہا ہے۔۔۔نظم کے تو کیا کہنے۔۔۔ نظم اور نثر دونوں کو انہوں نے غلام بنا رکھا تھا۔۔۔ وہ ہرسال رمضان میں ایک دن روزہ رواداری بھی رکھتے تھے اور اس کی دعوت افطار بھی کرتے تھے۔۔  


30 دسمبر 2017 کے پروگرام میں ‘ میں نے پیچھے مڑ کر اپنی بیٹی سے پوچھا تھا کہ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ یہ شخص مسلمان ہے؟  میری بیٹی نے کہا تھا کہ بلاشبہ یہ مسلمان ہے۔۔۔میں نے پوچھا کہ اس کا پورا نام جانتی ہیں آپ ؟  اس کا نام پنڈت آنند موہن زتشی ہے۔۔۔گلزار دہلوی تو تخلص ہے۔۔۔اصلی برہمن ہے۔۔۔یہ سن کر بیٹی حیرت واستعجاب کا مجسمہ بن گئی تھی ۔۔۔


گلزار دہلوی کے فن’ شخصیت اور خدمات پر لکھنے کے لیے ایک سال چاہئے ۔۔۔پرانی دہلی اور اردو کی تہذیب کی وہ آخری علامت تھے۔۔۔ میں نے مذکورہ پروگرام کے بعد اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ اب وہ چراغِ سحری ہیں ۔۔۔ لیکن انہوں نے بجھتے بجھتے ڈھائی سال لگادئے۔۔۔ 


شاید عوامی طور پر انہوں نے جو آخری کلام پڑھا تھا وہ ان کی وہ درد بھری پیروڈی ہے جو انہوں نے علامہ اقبال کے کلام ۔۔۔” سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔” کو سامنے رکھ کر لکھی تھی۔۔۔۔یہ نظم  94 سالہ بوڑھے کے اندر پنپنے والے اس آتش فشاں کا مظہر تھی جو ملک پر چھاجانے والی اس نحوست کی وجہ سے نمو پارہا ہے جو نئے دور کے حکمرانوں کی دین ہے۔۔۔ 

سارے جہاں میں رسوا ہندوستاں ہمارا
ہم اس کے چیل کوے یہ بے زباں ہمارا

پربت وہ سب سے اونچا اب منہ چھپا رہا ہے
اور ہم پہ ہنس رہا ہے وہ پاسباں ہمارا

مذہب سکھا رہا ہے آپس میں بیر رکھنا
ہندی تو ہم نہیں ہیں ہندوستاں ہمارا

کس کو سنائے گنگا عظمت کی داستانیں
ہے ڈاکوؤں کا ہمسر اب کارواں ہمارا

انسانیت کے دشمن فرقہ پرست سارے
اب چھوڑ دیں خدارا ہندوستاں ہمارا

فرقہ پرست ظالم فسطائی کہہ رہے ہیں
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

سب رہبران ملت ثابت ہوئے منافق
اور سب کے سامنے ہے چہرہ عیاں ہمارا


گلزار دہلوی جس تہذیب کے امین تھے وہ شاید کبھی کی اٹھ چکی تھی۔۔۔ ان کے دم سے بس اس کا کچھ عکس اور ذکر زندہ تھا۔۔۔ میں جب 2005 میں “ویوز ٹائمز” کا چیف ایڈیٹر تھا تو ان سے استدعا کی تھی کہ اپنی یاد داشت کو ضبطِ تحریر میں لے آئیں ۔۔۔ میں نے پیشکش کی تھی کہ اس کام میں میرا ادارہ ان کا معاون بن سکتا ہے۔۔۔ لیکن شیطانِ زر نے انہیں بہکا دیا اور بات ختم ہوگئی ۔۔۔ اس دنیائے دوں کی بس اتنی ہی حقیقت ہے۔۔۔ یہاں ہمالہ سے بلند مقام ومرتبہ بھی آخر کار خاک اور راکھ میں مل کر فنا ہوجاتا ہے۔۔۔ آنکھ بند اور قصہ تمام ۔۔۔


 اتنے سے وقفہ کیلئے انسان کتنے جتن کرتا ہے۔۔۔ کتنوں سے جنگ مول لیتا ہے۔۔۔ اور کتنے غم واندوہ خرید لیتا ہے۔۔۔ اپنے سے پہلے چلے جانے والوں کا انجام بھی اس کے زمین پر واپس آنے کا محرک نہیں بنتا۔۔۔ آخر کار یہ کام ملک الموت کو ہی انجام دینا پڑتا ہے۔۔۔ گلزار اس اعتبار سے خوش انجام رہے کہ کورونا کے باوجود وہ ہسپتال کے بستر سے بسلامت اٹھ کر اپنے گھر آگئے تھے۔۔۔ احباب بہت خوش ہوئے تھے۔۔۔ کتنوں نے لکھا تھا کہ گلزار نے کورونا کو شکست دے دی ہے۔۔۔ لیکن موت کو کون شکست دے سکتا ہے؟