عارف نقوی


اکثر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی بڑی، اچھی بری کہانیاں لکھ کر یا مضامین لکھ کر اور اپنے نام کا ڈنکا بجواکر ہم اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیںاورہر قاری کا فرض ہوجاتا ہے کہ ہمارے اس احسان کااعتراف کرے۔ ہم یہ بھی دعوے کرنے لگتے ہیں کہ ہماری
زبان دنیا کی سب سے خوبصورت اور اہم زبان ہے اور ہم سے بڑا اس کا کوئی بھگت نہیں ہے۔ہم اپنے مضامین میں ثقیل اور غیر مانوس الفاط
اور تراکیب کا استعمال کر کے اردو داں حلقوں پر اپنا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہی باتیں ہم عام فہم انداز میں بھی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن شاید عام فہم زبان ، یعنی اصلی اردو زبان کا استعمال کچھ مشکل ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری زبان
کی بڑی خوبی صرف اس کی بناوٹ، اس کا حسن ، مٹھاس اور صوتی خوبی ہی نہیں ہے ، جس پر ہمیں بجا ناز ہے ، بلکہ اس کے وہ پیغامات ہیں جو وہ انسانیت کے لئے دیتی رہی ہے اور پیار ومحبت، اخلاص و رفاقت، انصاف و مساوات ،سچی حب الوطنی، امن عالم اور اخووت کی آواز بن کر گونجتی رہی ہے اور ہمارے ثقیل اور غیر مانوس الفاظ اور تراکیب سے زیادہ عام فہم پیرایوں نے اس زبان کے فروغ اور مقبولیت میں رول ادا کیا ہے۔ وہی کہانیاںاور نظمیں اردو کی مقبولیت میں رول ادا کرتی ہیں جو انسانی زندگی کے قریب ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت سے غیر اردو داں سمجھے جانے والے لوگوںنے اس زبان کو مقبول بنانے میں بہت اہم رول ادا کئے ہیں۔ مثلاًوہ اردو گیت جو فلم کے آسمان پر اٹھ کر لتا منگیشکر، کے ایل سہگل، مناڈے اور مکیش کی شیرینی اور دردکے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں ، کہ بچّہ بچّہ انہیں گنگناتا ہے ، یا جگجیت سنگھ، چترا اور دیگر پنجابی اور بنگالی گلو کاروں کے ہونٹوں سے نکل کر لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو گئے ہیں، یا وہ ناٹک اور فلم کے اداکار جن کے ادا کئے ہوئے اردو مکالموں نے لوگوں کو رُلایا، ہنسایا ، ان کے دلوں کو گرمایا اور ان میں زندگی کی رمق پیدا کی ہے ، ان پر اردو کے فروغ کا بڑا سہرا ہے۔
مثلاً اردو کے مشہور افسانہ نگار کرشن چندر کے ایک ڈرامے ’’ سرائے کے باہر‘‘ کے ان ڈائلاگ کی زبان ملاحظہ کیجئے:
’’منی میرے پاس آنسوئوں کا ایک خزانہ ہے۔ ان آنسوئوں میں انسان کی کہانی ہے۔ ان میں زخمیوں کی چیخ و پکار ہے اور کمسن بچّوں اور عورتوں کے نالہ و شیون۔ ان آنسوئوں کے افق پر ہمیشہ کالی گھٹا چھائی رہتی ہے، جس میں کبھی کبھی ایک ایسی خوفناک بجلی کا کوندا لہراتا ہے کہ بڑے بڑے جیالوں کے دل دہل جاتے ہیں۔۔۔لیکن ان آنسوئوں کے پیچھے کبھی کبھی سات رنگوں والی قوس و قزح کا نرم و نازک جھولا بھی نظر آجایا کرتا ہے۔بس ایک ہی لمحے کے لئے۔‘‘ یہ ڈرامہ میں نے ۱۹۵۸ء میں لکھنئو میں مختصر ڈراموں کے کل ہند مقابلے میں اسٹیج کیا تھا اور پہلا انعام حاصل کیا تھا۔ بعد میںجرمنی آنے کے بعد برلن ریڈیو کے لئے جرمن زبان میں اس کا ترجمہ کیا تھا، جو براڈکاسٹ ہو کر بہت مقبول ہوا۔
ایسے ہی دو اورستاروں سے میرا سابقہ پڑا ہے۔ پرتھوی راج کپور ، جو میرے لئے بڑے بھائی کے برابر تھے، لیکن ان کا رویہ دوستانہ تھا۔ ہم لوگ ایک ہفتے سے زیادہ چیکو سلوواکیہ کے خوبصورت شہرکارلووی واری میں ساتھ رہے، جہاں خواجہ احمدعباس انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی فلم ’آسمان محل‘ اور اس کے سب سے اہم اداکار پرتھوی راج کپور کو لے کر آئے تھے ، اور مجھے فیسٹیول کو چھوڑ کر وہاں کی ایک نہر کے کنارے پرتھوی راج سے گھنٹوں اردو اور فارسی کے اشعار سننا پڑتے تھے اور بعد میں جب ہم پراگ جا کر ٹھہرے تو وہاں بھی سننا پڑے۔ جتنے اشعار انہیں یاد تھے ان کے آدھے بھی مجھے یا دنہیں تھے۔


دوسری شخصیت سنیل دت کی تھی ، جن سے میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے ملاقات کی تھی، لیکن جلد ہی ہم دونوں بہترین دوست بن گئے تھے، ۔سنیل دت اور ان کی اہلیہ نرگس دت ہمارے فیملی فرینڈ بھی ہو گئے تھے۔ میں نے بمبئی میں بھی ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور وہ جب بھی جرمنی آتے ہم لوگ ساتھ رہتے۔ وہ سرمایہ دارطبقے سے تعلق رکھنے والے اورمیں ترقی پسند خیالات کا نمائندہ ، وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے والے اور میں سیدھی سادی زندگی گزارنے والا انسان۔ لیکن پھر بھی ہماری دوستی بڑھتی گئی، جو ایک طرح سے دونوں خاندان کے بیچ دوستی ہو گئی ، کیونکہ میری اہلیہ اور بیٹی اور نرگس بھابی بھی اس میں شریک تھیں۔سنیل دت سے میں سیاسی مسائل پر گفتگو نہیں کرتا تھا، کیونکہ ہمارے نظریات مختلف تھے، حالانکہ نرگس بھابی کے ساتھ اکثر سیاسی مسائل پر تبادلہء خیال ہوا۔
ہماری دوستی کی بنیادفلموں میں دلچسپی سے زیادہ اردو شعر و شاعری تھی۔ سنیل دت سے جب بھی ملاقات ہوتی ان کے ہونٹوں سے اردو اشعار پھول بن کر جھڑنے لگتے۔اکثر گھنٹوں وہ مجھے اور دوسرے دوستوں کو اردواشعار سناکر رعب ڈالنے کی کوشش کرتے۔ عام طور سے میں نے دیکھا ہے کہ لوگ جب شاعری کرنے لگتے ہیں ، تو زبردستی دوسروں کو اپنے اشعار سنا کر مرعوب کرتے ہیں یا اس کا بہانہ ڈھونڈھتے ہیں۔ لیکن سنیل دت دوسروں کے اشعار سناتے ، ان کے مطلب بتاتے ، ان کا پس منظر سمجھاتے ، کبھی کبھی ان کے مطلب انگریزی میں سمجھاتے اور لطف لے لے کر بار بار دوہراتے تھے۔ جیسے خود انہیں کے لکھے ہوئے اشعار ہوں۔ انداز اتنا پیارا ہوتا تھا کہ جی چاہتا تھا بس سنتے ہی رہو۔ بعض اشعار تو نہ جانے کتنی بار پہلے سن اور پڑھ چکا تھا۔ خود ان کی زبان سے بھی بار بار سنے تھے، لیکن ہر بار مز ہ آجاتا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ سنیل کو اتنے اشعار کیسے یاد ہیں؟ مجھے تو شاید ان کے آدھے بھی یاد نہیں ہیں۔ میر، غالب، اقبال، جس شاعر کا نام زبان سے نکل جاتا تھا سنیل دت تڑ سے اس کا کوئی شعر سنا دیتے تھے اور ہاتھ میں گلاس کو ہلاتے ہوئے جھوم جھوم کر اس کے اشعار کی بارش کر دیتے تھے۔لگتا تھا جیسے یکطرفہ بیت بازی ہو رہی ہے۔اقبال کے بارے میں تو ان کا خیال تھا کہ وہ ٹیگور سے بھی بڑا شاعر تھا اور اسے نوبل انعام ملنا چاہئے تھا۔ سنیل دت ایک بار جب میرے گھر پر آئے تو انہوں نے میری مہمانوں کی کتاب میں اقبال کا یہ شعر اپنے ہاتھ سے لکھا تھا:

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ (اقبال)

مجھے سنیل کے ساتھ ایک محفل یاد آرہی ہے ، جسے میں نے اپنے کیسیٹ ریکارڈر سے محفوظ کر لیا تھا۔ وہ کیسٹ ہال میںمیری بیٹی نرگس نے ڈھونڈھ کر اور اس کی سی ڈی بنواکر میری ۸۵؍ ویں سالگرہ پر مجھے پیش کی ہے۔ اس سی ڈی سے بہت سی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔جی چاہتا ہے کہ آج انہیںآپ سے شئیر کروں۔

گور غریباں کے مطلب سمجھاتے ہوئے اور ایک مصرعہ طرح کا حوالہ دیتے ہوئے سنیل نے جھوم کر پڑھا:
گل آئے ،شمع آئی ،چاندنی آئی، نسیم آئی
نہ آنا تھا نہ آئے وہ مگر گورِ غریباں پر
حالانکہ اس موقع پر میں نے لقمہ دیتے ہوئے پڑھ دیا تھا:
کل تلک تو آرزوئوں کو ملایا خاک میں
آج خود تربت پہ آئے اور چراغاں کر گئے

جس کے جواب میں سنیل نے نہ جانے کتنے اشعار گورِغریبان سے متعلق سنا دئے۔اس وقت انہیں نہیں معلوم تھا کہ کچھ عرصے بعد
وہ خود اس دنیا میں نہیں رہیں گے۔ سنیل دت نے شعر کوٹ کیا:

اداسی خود بتائے گی کہ یہ کس بیکس کی تربت ہے
محبت کھینچ تو لائے انہیں گورِ غریباں پر
محبت کو بھی چھوڑو خاک ڈالو عہد و پیماں کو
ترس ہی کھا کے آئو، آئو تو گورِ غریباں پر
وفائیں مرنے والے کی تمہیں کیا یاد آئی ہیں
جھکائے کیوں کھڑے ہو آج سر گورِ غریباں پر

ہماری اس محفل میں بہت سے غیر اردو داں حضرات بھی تھے ، جو شعر سننے سے پہلے، پھر سننے کے بعد اور پھر مطلب سمجھنے کے بعد زور زور سے داد دینے لگتے تھے اور سنیل دت کا جوش اور بڑھ جاتا تھا۔ وہ اس طرح جھومنے لگتے تھے جیسے شاعر ہزار ریہرسل کے بعد بھی سناتے وقت نہ جھوم سکے۔سنیل ان الفاظ کے مطلب دیر تک ان لوگوں کو سمجھاتے اور داد حاصل کرتے رہے، پھر پینترا بدل کر پڑھا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
پھر ایک نظم سنائی:
رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
دل پہ تھے چھائے ہوئے بے نام غموں کے سائے
اور مجھ کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلّی دینے
پر تو نہ آئی
ایسے میں تری آواز کہیں سے آئی
جیسے پربت کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں ناگاہ
آسمانوں سے کوئی ستارہ ٹوٹے

اس کے بعد انہوں نے مجروح کے اشعار چھیڑ دئے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

پھر جب علامہ اقبال کی یاد آئی تو دیر تک ان کی تعریف کرتے رہے، کبھی اردو میں تو کبھی انگریزی میں، خاص طور سے ان کے ویژن کی: There is no greater poet, not even Tagore….
’’اقبال کو وہ کیا کہتے ہیں نوبل پرائز ملنا چا ہئے تھا۔‘‘
ا ے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی
طائر لاہوتی کے مطلب دیر تک سمجھانے کے بعد شاہین کے مطلب، اس کی پرواز، پرواز کا انداز سمجھاتے ہوئے پڑھا:
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
سنیل دت نے ترلوک چند محروم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مشاعرے کا حوالہ دیا ، جس میں مصرعہ طرح رکھا گیا تھاَ:
کافر ہیں وہ جو قائل نہیں اسلام کے
اس مشاعرے میں ترلوک چند محروم نے پڑھا تھا:
بَل لام کے کھائے ہوئے گیسو مرے گھنشیام کے
کافر ہیں وہ جو قائل نہیں اس لام کے
ہماری اس محفل میں زیادہ تر دوست اردو سے نا بلد تھے، اور صرف سنیل سے ملنے یا انہیں دیکھنے کے لئے آگئے تھے، اور ہم خوش تھے
کہ ہماری بزم گرم ہے، لیکن کچھ تو سنیل کے پڑھنے اور سمجھانے کا انداز ہی نرالا تھا اور اشعار کے مطلب سمجھنے کے بعد ان لوگوں کا جوش اور بڑھ جاتا تھا، آنکھیں کھل جاتی تھیں اور ان کی نظروں میں اردو زبان و ادب کی وقعت اور عزمت بڑھ جاتی تھی۔
عجیب و غریب شخص تھا یہ ۔ اردو شعر و شاعری کا دیوانہ، جو خود شاعر نہیں تھا، میں نے شاید ہی ایسا دیوانہ دیکھا ہو۔ سنیل کو معلوم تھا کہ میں نظمیں اور غزلیں لکھتا ہوں۔ اکثر وہ مجھ سے سنانے کی فرمائش بھی کرتا، لیکن پھر اس کے بعد دوسروں کے لاتعداد اردو اشعار سنا کر رعب ڈالنے لگتا۔
ایک بار میں اپنی فیملی کے ساتھ بمبئی گیا ہوا تھا۔ سنیل دت نے ہم لوگوں کے لئے ہوٹل سَن اینڈ سین میں کھانے کا بندوبست کیا تھا۔ نرگس بھابی کہیں گئی ہوئی تھیں۔ ایک صاحب جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ وہ ایر انڈیا کے جنرل مینیجر ہیں اور ایک دوسرے صاحب اپنی
بیٹیوں کے ساتھ ملنے آئے ہوئے تھے۔ میری بیٹی اور اہلیہ سوئمنگ پول کی طرف چلی گئیں تو سنیل نے شعر و شاعر شروع کر دی اور میر، غالب، اقبال، جگر سب کو وہاں گھسیٹ لیا۔ یہاں تک کہ لنچ کا وقت ہو گیا۔ میری بیٹی اور اہلیہ بھی سوئمنگ پول سے لوٹ آئیں۔ نرگس بھابی بھی پہنچ گئیں ۔ سنجے دت اور سنیل کی دونوں بیٹیا بھی آگئیں اور شعر و شاعری کی جگہ فوٹو کھنچوانے اور دوسری باتوں کا دور شروع ہو گیا۔
ایک بار میں سنیل کے گھر پر ہی پالی ہلس میں ٹھہرا ہوا تھا سنیل مجھے تاج ہوٹل میں کافی پینے کے لئے لے گئے۔ وہ جانتے تھے کہ میں شراب پسند نہیں کرتا ہوں۔ بعد میں انہوں نے اپنے اسٹوڈیو میں میرے لئے اپنی فلم ریشما اور شیرا کی اسکریننگ رکھی تھی جو وہ جرمنی میں بیچنا چاہتے تھے اور انہیں سخت خسارہ ہو چکا تھا۔ میرا ایک کزن بھی میری وجہ سے وہاں آگیا تھا، جو ان دنوں بمبئی میں مقیم تھا۔ ہال میں
ہم چند لوگ تھے۔ میری بغل میں سنیل دت نے فلم کے ہدایت کارکو بٹھایا تھا۔میرا کزن ایک دوسری صف میں بیٹھا تھا۔ اچانک اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس پہنچا اور بولا: اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں بھائی جان کے پاس بیٹھ جائوں۔ وہ بے چارے نہایت ہی شرافت سے اٹھ کر دوسری طرف چلے گئے۔ لیکن سنیل دت نے اس کو وہاں بیٹھنے سے منع نہیں کیا۔
دراصل سنیل دت دل کا بہت اچھا، مگر جذباتی انسان تھا۔میں اکثر دعا مانگتا تھا کہ خدا سنیل کو چاپلوسوں اور تعریف کے پل باندھنے والوں سے بچائے۔ کیونکہ اس کی حالت کبھی کبھی ایسی ہوتی تھی کہ گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ۔ ایک بار وہ لائپزگ میں عالمی دستاویزی فلم فیسٹیول میں شرکت کے لئے آیا۔ نرگس بھابی ان کے ساتھ تھیں۔ سنیل جیوری کے ممبر تھے ۔ اس لئے ان کی بڑی آئو بھگت کی گئی۔نرگس بھابی لندن جانا چاہتی تھیں اس لئے میں ان کو لے کر برلن آگیا اور وہ ایک دن بعدمغربی برلن سے لندن چلی گئیں۔ جب فیسٹیول ختم ہو گیا تو سنیل دت کو صبح تڑکے دوسرے مہمانوں کے ساتھ بس میں برلن بھیج دیا گیا۔ میں یونیورسٹی میں کلاس لے رہا تھا کہ میری اہلیہ کا فون آیا کہ سنیل دت تمہیں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ میں کلاس کے بعد مشرقی برلن کے ہوٹل ’بیرولینا‘ میں پہنچا جہاں ان کے لئے کمرہ بک کر لیا گیا تھا۔ مگر وہ وہاں نہیں تھے۔ میں سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔چنانچہ میں مغربی برلن کے ہوٹل ’کیمپنسکی‘ پر پہنچا جہاں ایک دن پہلے نرگس بھابی کو چھوڑا تھا۔ دیکھا کہ سنیل دت اپنے کمرے میں بھنبھنا رہے ہیں:
’’ان لوگوں نے صبح ۶ بجے مجھے گاڑی سے برلن بھیج دیا۔ ہاتھ منہ بھی ٹھیک سے نہیں دھویا تھا۔تمہیں کئی بار فون کیا تم بھی نہیں تھے۔ ہوٹل والوں نے کہا کہ آپ کا کمرہ ۱۲؍ بجے سے بُک کیا گیا ہے۔اس سے پہلے نہیں مل سکتا۔ عجیب لوگ ہیں۔۔۔‘‘
میں نے سمجھایا کہ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔ پھر مشرقی برلن میں لوٹ کر وزارت ثقافت میں جو صاحب فلموں کے لئے ذمے دار تھے، ڈاکٹر کرانز‘ ان سے شکایت کی۔تھوڑی دیر بعدان کا فون میرے پاس آیا کہ وزیر ثقافت کا کہنا ہے کہ وہ خود سنیل دت کے پاس جا کر ان کی وزارت کی طرف سے معافی مانگیں۔ انہیں مغربی برلن جانے کے لئے خاص اجازت نامہ دیا جائے گا۔ لیکن میں اس وقت وہاں موجود رہوں۔ پھر جب میں ڈاکٹر کرانز کو لے کر سنیل کے پاس ان کے کمرے میں پہنچا تو خوشی سے بچوں کی طرح کھِل اٹھے اور بولے:
Let us celebrate. آج کا ڈنر میری طرف سے۔ ہم لوگ ایک ریستوراں میں پہنچے جو انہیں پسند نہیں آیا۔ پھر دوسرے میں۔ وہاں
کے مینیجر نے سنیل دت کو پہچان لیا اور سب کے سامنے ان کی اتنی تعریف کی کہ وہ راجہ اندر بن گئے۔ پھر وہ سنیل کو اور ہم لوگوں کو اپنا نیا بار دکھانے کے لئے لے گیا، جو اسی عمارت کے ایک حصّے میں تھا۔ ہر طرف سے سنیل سنیل کی آوازیں آنے لگیں ، جس کا انجام یہ ہوا کہ اس دن ہم لوگوں کو ( دراصل سنیل کو) ۱۵۰۰ (پندرہ سو ) مارک دے کر اپنی جان چھڑانا پڑی ، حالانکہ اس کے بعد ہوٹل تک جانے کے پیسے نہیں بچے تھے۔ صبح چار بجے جب ہم ہوٹل کی طرف ، جو ۲ کلومیٹر دور تھا، پیدل جا رہے تھے ، تو اس وقت بھی سنیل کے ہونٹوں سے اردو اشعار جھڑ رہے تھے اور میرے غصّے کوٹھنڈا کر رہے تھے۔
نرگس بھابی کی وفات کے بعد سنیل دت اندر سے جیسے ٹوٹ گئے تھے۔ اب جب بھی وہ برلن آتے اوراشعار سناتے تو ان کی آنکھوں میں وہ چمک اور لہجے میں خوشی نہ ہوتی ۔ نہ ان کا لہک لہک کر پڑھنے کا انداز ہوتا، بلکہ اکثر درد بھرے اشعار نکلتے۔ وہ زیادہ تر نرگس دت کے نام سے کینسر کے خلاف اسپتال کی جو مہم چلا رہے تھے اس کے مسائل پر بات کرتے۔
ایک بار میں لکھنئو میں تھا کہ معلوم ہوا کہ سنیل دت ، دلیپ کمار اور نوشاد آئے ہوئے ہیں۔ مئیر کی طرف سے انہیں سپاس نامہ پیش کیا جائے گا۔ بیگم حضرت محل پارک میں ان کے لئے بہت بڑا جلسہ رکھا گیا ہے۔ مجھے بھی دعوت نامہ مل گیا تھا۔ میںلوگوں کی پہلی قطار میں تھا ، جہاں سے حد بندی کر دی گئی تھی، لیکن سنیل دت نے مجھے دور سے دیکھ کر ڈائس پر بلا لیا اور دوسرے دن راج بھون میں جہاں وہ یوپی کے گورنر کے مہمان تھے ملنے کے لئے کہا۔ وہاں دلیپ کمار اور نوشاد بھی تھے۔ دیر تک ان سے اشعار بھی سننے کو ملے، حالانکہ دلیپ کمار کو زیادہ دلچسپی جرمن خواتین کی نفسیات کے بارے میں مجھ سے جاننے کی تھی اور نوشاد کو سنگیت میں۔ اس دن سنیل دت بہت پریشان تھے ، کیونکہ ان کا بیٹا جیل میں تھا۔ اور ان کا خیال تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس دن انہیں بہادر شاہ ظفر کے اشعار زیادہ یاد آرہے تھے۔
کہہ دو یہ حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
سنیل دت اور ان کے جیسے بعض دوسرے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے شیدا ہم نام نہاد اردو داں لوگوں تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ ہمیں اپنے خول سے باہر نکل کر دیکھنا چاہئے۔ تب ہماری سمجھ میں آئے گا کہ اردو کے ضامن کون ہیںاور یہ زبان و ادب کیوں لازوال ہے؟

Arif Naqvi
Rudolf-Seiffert-Str. 58
10369 Berlin
Phone: 0049-30-9725036
Mobile & Whatsapp: 0049-17639423087
E-mail: naqviarif(at)yahoo.com
www.arif-naqvi.com