عاقل حسین،مدھوبنی,بہار

عاقل حسین،مدھوبنی,بہار

گذشتہ کچھ سالوں میں ملک کی عدلیہ اپنے انصاف کے مقاصد سے بھٹک گئی ہے اور اس کا فائدہ اقتدار پارٹی اٹھارہی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں عدلیہ کا اہم کردار رہا ہے۔ جمہوری ملک کے کسی فرد کو کہیں بھی اگر انصاف نہیں ملتا ہے تو اسے آخری امید ملک کی عدلیہ پر ہوتی ہے۔ اگر ملک کی عدالتیں اپنے مقاصد سے بھٹک جائیں تو پھر جمہوری ملک کے باشندوں کا کیا ہوگا؟ جو سالہا سال تک عدلیہ سے انصاف کی امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔ وہ لوگ انصاف کے لئے آخر کہاں جائیںگے؟ ویسے ایک زمانہ تھا جب ملک کے وزیر اعظم کو عدالت میں اپنا بیان درج کرانے کے لئے گھنٹوں کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ اس وقت کے ججز کا ایک وقار ہوا کرتا تھا مگر بدلتے بھارت میں عدالتوں کے ججز کے فیصلے چونکانے والے ہورہے ہیں جس کا تصور بھی جمہوری ملک نے کبھی نہیں کیا تھا۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے ہیں جس نے ملک کی سمت اور حالت دونوں ہی بدل دی۔ 1971؍ میں رائے بریلی کے پارلیامانی انتخاب میں اندراگاندھی نے زبردست جیت حاصل کی۔ ان کی جیت کو سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار راج نارائن نے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ کیوںکہ راج نارائن کو اپنی جیت کے تئیں اتنا یقین تھا کہ نتیجے کا اعلان ہونے سے قبل ہی ان کے حامیو ںنے فتح جلوس نکال دیا تھا۔ جب نتیجے کا اعلان ہوا تو راج نارائن کے ہوش اُڑ گئے تھے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں اس معاملے میں بحیثیت وزیر اعظم اندرا گاندھی کو عدالت میں اپنا بیان درج کرانے کے لئے 18؍مارچ 1975؍ میں الہ آباد ہائی کورٹ میں جسٹس جگموہن لال سنہا کے حکم پر حاضر ہونا پڑا تھا۔ جسٹس سنہا نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ عدالت میں لوگ تبھی کھڑے ہوتے ہیں جب آتے ہیں۔ اس لئے اندرا گاندھی کے آنے پر کسی کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔ بحیثیت وزیر اعظم اندرا گاندھی نے عدالت میں کھڑی ہوکر 5؍ گھنٹے تک اپنا بیان درج کرایا تھا۔ جسٹس سنہا نے عدالت میں دونوں فریق کے وکیل کی دلیلیں سنی بعدازاں 12؍ جون 1975؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموہن لال سنہا فیصلہ سنانے والے تھے جس پر پورے ملک کی نظر ٹکی ہوئی تھی۔ جمہوری ملک کے وزیر اعظم کے معاملے میں فیصلہ آنا تھا۔ جسٹس جگموہن لال سنہا نے راج نارائن کی عرضی میں جو 7؍ الزامات اندراگاندھی کے خلاف لگائے تھے اس میں سے 5؍ الزامات میں اندراگاندھی کو راحت دی تھی مگر 2؍ الزام میں اندرا گاندھی کو قصور وار پایا تھا۔ فیصلے کے مطابق عوامی نمائندگی قانون کے تحت اگلے 6؍ سال تک اندراگاندھی کو لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب لڑنے کے نااہل قرار دیتے ہوئے انتخاب کو منسوخ کردیا تھا۔ ویسے اس وقت اندرا گاندھی اور ان کے حمایتیوں کو اندازہ لگنے لگا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف جاسکتا ہے۔ ایسے میں جسٹس جگموہن لال سنہا کو متاثر کرنے کی کوشش بھی شروع ہوئی اور حکومت کے ذریعہ اپنے کئی سرکاری خفیہ مشینری کو لگاکر جسٹس جگموہن لال سنہا پر فیصلہ بدلنے کا دبائو بھی بنایا گیا تھا۔ لیکن جسٹس جگموہن لال سنہا عدالتی وقار کو بچانے کے لئے سرکاری کسی بھی دبائو میں نہیں آئے۔ یہاں تک کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے ذریعہ بھی دبائو بنایا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں‘ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی ایس ماتھور‘ اندراگاندھی کے پرائیوٹ معالج ڈاکٹر کے پی ماتھور کے قریبی رشتہ دار تھے۔ جسٹس جگموہن لال سنہا کے گھر پر ڈاکٹر کے پی ماتھور اپنی اہلیہ کے ساتھ پہنچے۔ انہوںنے جسٹس سنہا سے کہہ دیا کہ اگر وہ راج نارائن معاملے میں حکومت کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں تو انہیں فوری سپریم کورٹ بھیج دیا جائے گا لیکن اس کا جسٹس سنہا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ جسٹس سنہا نے عدالت کا وقار بحال رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اندراگاندھی نے انتخاب میں حکومت ہند کے افسران اور سرکاری مشینری کا استعمال کیا ہے۔ عوامی نمائندگی قانون میں اس کا استعمال انتخابی کاموں کے لئے کرنا غیر قانونی تھا۔ اسی 2؍ مدعے کو بنیاد بناکر جسٹس سنہا نے وزیر اعظم اندراگاندھی کے رائے بریلی سے لوک سبھا کے لئے ہوا انتخاب منسوخ کردیا۔ ساتھ ہی جسٹس سنہا نے اپنے فیصلے پر 20؍ دن کے التواء کا حکم صادر کردیا۔ نہ صرف یہ بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی جج نے کسی وزیر اعظم کے خلاف اس طرح کا فیصلہ سنا یا ہو مگر آج کے دور میں عدالت کا وقار ویسا نہیں رہ گیا ہے جیسے پہلے تھا۔ آج تو یکطرفہ فیصلہ کے عوض میں حکومت کے ذریعہ جج کو راجیہ سبھا ممبر بناکر اسے اعزاز دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کے 13؍ مہینہ 15؍ دن کے کام پر سوال بھی اٹھایا کہ انہوںنے اپنی مدت میں کئی متنازعہ امور کے فیصلے حکومت کے حق میں دیئے ہیں۔ اس میں رافیل ڈیل، بابری مسجد، طلاق ثلاثہ، کیرالہ کے رام سبری مالا مندر، آسام میں این آرسی میں 19؍ لاکھ افراد فہرست سے خارج کئے گئے۔ این آرسی کی مانیٹرنگ کرنے والی بنچ کی بھی قیادت رنجن گگوئی کررہے تھےجو حقیقی طور پر حکومت کا کام ہونا چاہئے تھا۔ اس سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ملک گیر این آرسی منصوبہ بنانے میں مدد ملی۔ ایک مرتبہ کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس سوکومارن نے الزام لگایا تھاکہ بالاکرشن نے ذاتی مفاد کے لئے اپنے بھائی کو ان کے نام اور عہدہ کے غلط استعمال کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ کیرالہ پولس اور انکم ٹیکس محکمہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے کنبہ نے 35؍ کروڑ روپئے کی دولت جمع کررکھی تھی جب وہ ملک کے چیف جسٹس تھے۔ کیرالہ حکومت نے جانچ کا حکم دیا تھا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس سے پہلے اندراگاندھی نے اپنی پسند کے افراد کو سپریم کورٹ لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ اس کے لئے انہوںنے سینئریٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے چہیتے لوگوں کو منتخب کیا۔ بھارت کے چیف جسٹس رہے محمد ہدایت اللہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کا نائب صدر جمہوریہ بنایا گیا۔ یہ اندراگاندھی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ وہ 1979؍ سے 1984؍ تک ملک کے نائب صدر جمہوریہ رہے۔ ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس ایم فاطمہ بی بی کو ریٹائرمنٹ کے بعد تمل ناڈو کا گورنر بنایا گیا تھا۔ 1997؍ سے 2001؍ تک وہ گورنر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ بھاجپا جب 2014؍ میں اقتدار میں آئی تھی تو اس سے 1؍ سال پہلے موجودہ مرکزی وزیر پیوش گوئل کیا تھا: ’ججوں کے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فائدے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت کچھ کیا جارہا ہے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فائدے عدالتی فیصلے کو متاثر کرتے ہیں‘۔ سپریم کورٹ میں گگوئی کے معاون رہے جسٹس لوکور اور کورین جوشیف نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی سرکاری عہدہ نہیں لیںگے۔ ایسا کرکے انہوںنے ایک شاندار روایت کو نبھایا ہے۔ جسٹس رنگناتھ مشرا اس سے پہلے ایسے چیف جسٹس ہوئے جو راجیہ سبھا کے ممبر بنے تھے لیکن انہیں منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ وہ کانگریس کے ٹکٹ پر 1998؍ میں راجیہ سبھا گئے تھے پھر بھی اسے ایک متنازعہ قدم ہی مانا گیا۔ کیوںکہ اسے سیاسی فائدہ اٹھانے کے طور پردیکھا گیا۔ اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہوئی نسل کشی میں بڑے کانگریسی نیتائوں کو بچانے کے انعام کے طور پر اسے دیکھا گیا۔ انہوںنے فسادات کی جانچ کے لئے بنائے گئے جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی سربراہی کی تھی۔ اگست 2014؍ میں پی سداشیوم کے جسٹس عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد کیرالہ کا گورنر فائز کیا گیا۔ اس وقت تک بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی۔ کانگریس نے یہ کہتے ہوئے تنقید کیا تھا کہ امیت شاہ کو تلسی رام پرجاپتی کے مبینہ فرضی انکائونٹر معاملے میں کھلی چھوٹ کا انعام دیا گیا ہے۔ تلسی رام پرجاپتی سہراب الدین شیخ کا معاون تھا جو مبینہ فرضی انکائونٹر میں مارا گیا۔ سہراب الدین کی بیوی کوثر بی بی بھی اس میں ماری گئی تھی۔ جسٹس سدا شیوم نے ان معاملوں میں امیت شاہ پر لگے الزامات کو پوری طرح سے خارج کردیا تھا۔ بھارت کے ایک اور سابق چیف جسٹس ان کا نام اس طرح کے تنازعات میں رہا ہے وہ ہیں جسٹس کے جی بالا کرشن‘ وہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کرونا کرن کے نزدیکی مانے جاتے تھے۔ انہوںنے کیرالہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے بالاکرشن کی دعویداری کی حمایت کی تھی۔ وہ دلت طبقہ سے آتے ہیں اس کے باوجود کئی دلت وکلاء نے صدر جمہوریہ کو عرضی بھیج کر کہاتھا کہ وہ ہائی کورٹ کے جج کے لئے لازمی شرائط پر کھرے نہیں اُترتے ہیں۔ جب وہ مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تب ان پر کئی فیصلے میں اپنے اقرباء کے مفاد پرستی کے الزامات لگے تھے۔ غیر سرکاری تنظیم ’کامن‘ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر الزام لگایا تھا کہ جسٹس بالا کرشن نے آمدنی سے زیادہ املاک جمع کررکھی ہے۔ اٹارنی جنرل مکل رہتوگی نے کہاتھا کہ اگر ان کے خلاف جانچ ہوئی تو بہت سے راز کھلیںگے۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت میں بالا کرشن کے بچے اور بھائیوں کے نام پر 22؍ سے زائد مقامات پر املاک ہونے کی بات کہی تھی۔ وہ جنوری 2007؍ سے لے کر 2010؍ تک ملک کے چیف جسٹس رہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے سابق جج پی کے شمس الدین نے کہاتھا کہ بالا کرشن کے خلاف ضروری جانچ ہونی چاہئے۔ انہوںنے بتایا کہ ایک مرتبہ بالا کرشن کے بیٹے یا پھر داماد سے ملاقات کرنے کے لئے ایک دلال نے ان سے رابطہ قائم کیا تھا۔ اس وقت بالا کرشن ملک کے چیف جسٹس تھے۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عدالتی وقار کے مستقبل پر سوال اٹھاتے ہوئے کچھ سوالات کئے تھے تو عدالت نے عدالتی توہین کے الزام میں انہیں خاطی قرار دیا مگر پنجاب اور تمل ناڈو کے وکیلوں نے پرشانت بھوشن کے معاملے میں چیف جسٹس کو خط بھی لکھا اور عدالت کے فیصلے کی تنقید کی۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا جمہوری ملک میں لوگوں کے بولنے کی آزادی پر بھی روک لگانے کی کوشش ہورہی ہے؟ ایک تحریر میں جسٹس لوکور نے کہاتھاکہ جمہوریت کے چاروں پیلر کا اعتماد بحال رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے لکھا ہے کہ حال میں آئے کچھ عدالتی فیصلے اور سرکاری اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ججز کو اپنی ریڑھ کی ہڈی مضبوط تھوڑی ہمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے کئی مثال موجود ہے جو یہ دکھاتی ہے کہ عدالت سرکاری دبائو میں کام کررہی ہے اور اپنی آزادانہ شناخت کھوتی جارہی ہے۔ حال ہی میں بھارت کے چیف جسٹس ایس اے بوبرے عوامی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی تعریف کرنے سے خود کو روک نہیں پائے۔ جمہوریت کی 4؍ پیلر میں سے ایک عدلیہ میں ان دنوں نیتائوں کے اثرات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ملک باشندوں کو یاد ہوگا جب 12؍ جنوری 2018؍ کو سپریم کورٹ کے 4؍ سینئر ججز نے عدالت کے سنگین مسائل کی فہرست سازی کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف محاذ آرائی کی تھی اور پریس کانفرنس کر عدلیہ کی آزاد پر سوال اٹھائے تھے۔ اس میں جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی، جسٹس لوکور اور جسٹس کورین جوشیف شامل تھے۔ ان ججز نے کہاکہ یہ مسئلے ملک کی سپریم کورٹ کے عدالتی نظام کو نقصان پہنچارہے ہیں اور یہ ہندوستانی جمہوری نظام کو برباد کرسکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ ان ججز نے کہاتھا کہ سپریم کورٹ میں جس طرح کے حالات ہیں اس سے ملک میں جمہوریت باقی نہیں رہ سکے گی۔ یہ آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلا ایسا واقعہ ہے جب چاروں جسٹس نے دوہراتے ہوئے کہاتھا کہ جمہوریت دائو پر ہے۔ نیز حالیہ دنوں میں کئی واقعات ہوئے۔ ان مدعوں کے بارے میں پوچھنے پر انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس کے ذریعہ مقدموں کا اختصاص بھی شامل ہے۔ ان کا یہ تبصرہ کافی اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ سپریم کورٹ کے سامنے 12؍ جنوری 2018؍ کو ہی حساس سہراب الدین شیخ انکائونٹر معاملے کی سماعت کررہے سی بی آئی کے خصوصی جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کی آزادانہ جانچ کے لئے دائر عرضی بھی فہرست میں تھی۔ جب صحافیوں نے پوچھا تھا تو چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہاتھا کہ کوئی بھی ڈسپلن متاثر نہیں کررہا ہے اور یہ جو ہم نے کیا ہے وہ ملک کا قرض اتارنا ہے۔ ان ججز نے کہاتھا کہ ہمارے ملک کے تئیں جوابدہی ہے اور ہم نے چیف جسٹس کو منانے کی کوشش کی مگر ہماری کوشش ناکام رہی۔ اگر ادارہ کو نہیں بچایا گیا تو جمہوریت ناکام ہوجائے گی۔ جبکہ ملک کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے محض ٹوئٹر پر سوالات اٹھائے تو ان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ ہوگیا۔ لیکن آئینی عہدہ پر بیٹھے ججز نے تو پورے ملک کے سامنے چیف جسٹس اور عدالتی نظام پر سوالات اٹھائے تھے جس کے بعد چیف جسٹس دیپک مشرا سبکدوش ہوئے تو اسی سال 3؍ اکتوبر 2018؍ کو رنجن گگوئی ملک کے چیف جسٹس بنائے گئے۔ کچھ تو اس وقت وجہ ضرور تھی‘ کیا مجبوری تھی کہ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سبکدوشی کے بعد اسی رنجن گگوئی کو چیف جسٹس بنایا گیا جو 3؍ ججز کے ساتھ ملک کے سامنے آئے تھے اور چیف جسٹس کے خلاف مورچہ کھولا تھا۔ اگر رنجن گگوئی سے ہی پوچھا جائے کہ آپ کے 13؍ مہینے 15؍ دن کی مدت میں کیا فیصلے صحیح ہوئے ہیں؟ 13؍ مہینے 15؍ دن کی مدت سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی راجیہ سبھا ممبر بنائے گئے۔ جسٹس لوکور نے واجب ہی سوال پوچھا تھا کہ جب آخری قلعہ ہی منہدم ہوجائے تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔