عادل فراز

امریکہ میں جوئے بائیڈن کی حلف برداری کے ساتھ ہی ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیاہے ۔امریکی عوام نے ٹرمپ کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو مسترد کرتے ہوئے جوئے بائیڈن کونیا صدر منتخب کیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو اب تک اپنی شکست کا یقین نہیں ہوسکاہے کیونکہ ٹرمپ کو یہ قطعی امید نہیں تھی کہ امریکی عوام انہیں اس طرح مسترد کردے گی ۔امریکی عوام نے سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ نو منتخب صدر جوئے بائیڈن کو بھی یہ واضح پیغام دیاہے کہ جمہوری نظام میں اصل طاقت عوام کےپاس ہے ۔اگر حکومت عوام کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتر زندگی کے لئے کام نہیں کرتی ہے تو اسے اسی طرح ذلت آمیز رخصتی پر مجبور کردیا جاتاہے ۔ٹرمپ نے الوادعی خطاب میں کہاہے کہ ’ یہ تو ابھی شروعات ہے ‘ یعنی وہ ابھی تک عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کرسکے ہیں اور آئندہ بھی وہ اپنی شکست کے فیصلے کو قبول نہیں کریں گے ۔اب دیکھناہے یہ ہوگا کہ ٹرمپ کی آئندہ حکمت عملی کیا ہوگی ؟۔آیا وہ نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کریں گے یاپھر امریکی سیاست سے علاحدگی اختیار کرلیں گے کیونکہ ان کی پارٹی میں اکثریت ان کے مخالف ہے ۔ٹرمپ کے حامی بھی صدارتی تبدیلی کو برداشت نہیں کرپارہے ہیں۔امریکی پارلیمنٹ پر قبضے کی کوشش اورٹرمپ کے اشارے پر تشدد مظاہرے اس بات کی دلیل ہیں کہ ٹرمپ اور ان کے حامی ابھی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اس طرح امریکی جمہوریت کی پول بھی کھل جاتی ہے اور ٹرمپ کا ذہنی دیوالیہ پن بھی دنیا کے سامنے واضح ہوجاتاہے۔ٹرمپ در اصل امریکی جمہوری نظام کو مسترد کررہے ہیں اور آمرانہ ذہنیت کے ساتھ میدان میں ہیں ۔اسی آمرانہ سوچ نے انہیں اس مقام پر لاکر کھڑا کردیاہے جہاں رسوائی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے ۔

ڈونالڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی ہے ۔امید ہے کہ جوئے بائیڈن امریکی خارجہ پالیسی پر ازسرنو غور کریں گے اور خوش آئند تبدیلیاں انجام دیں گے ۔بائیڈن نے خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ دیاہے ، اس کے باوجود اسلامی دنیا کے لئے زیادہ خوش فہمی نقصان دہ ثابت ہوگی ۔بائیڈن یقیناََ ٹرمپ کی پالیسیوں پر عمل نہیں کریں گے مگر ان کی خارجہ سیاست امریکی سیاسی روایت سے جدا نہیں ہوگی ۔امریکی سیاسی روایت اسلامی دنیا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ مستقبل میں قبول کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔یوروپی نظام سیاست اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور کسی بھی ملک کی سیاسی حکمت عملی کو اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔اگر بائیڈن امریکی سیاسی روایت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے فیصلے اور ان کے اثرات قابل دید ہوں گے ۔امریکی حکام نے جس طرح مسلمان حکومتوں کو تباہ و برباد کیاہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔عراق ،افغانستان ،شام اور یمن جیسے مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی کی نمایاں شکست روز روشن کی طرح واضح ہے اس کے باوجود ہم یہ امید نہیں کرسکتے کہ آئندہ امریکی سیاسی روایت میں کوئی برقی تبدیلی رونما ہوگی ۔امریکہ شام ،عراق اور یمن جیسے مسلم ممالک میں اپنی موجودگی پر از سرنو غور ضرورکرے گا مگر اس کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے ۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ ذلت آمیز شکست اور فوجی انخلاء سے روبرو ہے لیکن وہ اپنی دادگیری اورچودھراہٹ کی بقاء کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا ۔اس طرح مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقتوں سے تصادم کی گنجائش بڑھ جائے گی اور نئ محاذ آرائی دیکھی جاسکے گی ۔یہ محاذ آرائی چین اور اس کے حامی ممالک کے ذریعہ بھی وجود میں آسکتی ہے اور عراق ،شام ،یمن ،فلسطین سمیت دیگر ممالک کی ایران کی قیادت میں بھی ممکن ہے ۔بائیڈن کے لئے اس قدر دشمنوں پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا جن میں زیادہ تر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیدا کردہ ہیں ۔

بائیڈن اچھی طرح واقف ہیں کہ ٹرمپ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دوزخ میں جھونکنےکی ہر ممکن کوشش۔تیسری عالمی جنگ کا راستہ مشرق وسطیٰ سے ہوکر گذرتاہے ،آیا بائیڈن اس راستے کو مسدود کریں گےیا پھر اسی راہ پر چل کر دنیا کو جنگ کے دوزخ میں ڈھکیلنے کی کوشش کریں گے ؟ یہ بڑا سوال ہے ۔بائیڈن انتظامیہ کے لئے شام ،عراق،افغانستان ،یمن اور فلسطین سمیت ہزارہا ایسے خارجی مسائل ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے ۔ایران کے ساتھ اس کی دشمنی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا ۔جبکہ بائیڈن نے جوہری معاہدے میں واپسی کے امکانات کی طرف اشارہ کیاہے مگر جوہری معاہدہ میں واپسی آسان بھی نہیں ہے ۔چین جو دنیا کے سامنے’ اقتصادی گرو‘کی حیثیت سے متعارف ہواہے ،اس کی طاقت کے پھیلائو پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ مخالف طاقتیں چین کے ساتھ متحد ہورہی ہیں ۔روس عالمی سطح پر امریکہ کا بڑا حریف ہے جس کی خارجہ پالیسیاں امریکہ کے لئے ہمیشہ خطرناک چیلینچ ثابت ہوئی ہیں ،عالمی سطح پر جو طاقتور محاذ روس کی قیادت میں موجود ہے اس کے ساتھ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی پنجہ آزمائی دیدنی ثابت ہوگی۔ایسے ان گنت مسائل اورطاقتور ترین محاذ بائیڈن کے استقبال کے لئے عالمی سیاست کے میدان میں ہمہ وقت موجود رہیں گے ۔

بائیڈن کا دور اقتدار ہندوستان کے لئے بھی معنی خیز ثابت ہوگا ۔ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی تعلقات کا اثر دونوں ملکوں کی خارجہ سیاست پر بھی مرتب ہوا ہے ۔وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کے حق میں ہندنژاد امریکیوں کے درمیان انتخابی تشہیر بھی کی تھی ،مگر اس کا کوئی خاص فائدہ ٹرمپ کو نہیں پہونچا ۔یہ انتخابی تشہیر یوں تو ٹرمپ کے حق میں تھی ،اور دوستانہ تعلقات پر مبنی تھی مگر بائیڈن اس مہم کو اپنی ذاتی مخالفت پر بھی حمل کرسکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستان کے لئے خوش آئند خبر نہیں ہوگی ۔ٹرمپ اور نریندر مودی کے ذاتی تعلقات کا خمیازہ ہندوستان کو بھی بھگتنا پڑسکتاہے اور اس کے لئے صرف اور صرف وزیر اعظم مودی ذمہ دار ہوں گے ۔

اب جبکہ جوئے بائیڈن نے امریکی صدارت کا حلف اٹھالیاہے اور اب آئندہ پانچ سالوں تک وہ امریکی اقتدار کے مالک رہیں گے ،دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کی خارجہ پالیسی اور سیاست کا کونسانیا رخ دنیا کے سامنے آتا ہے ۔بائیڈن کے مطابق وہ ٹرمپ کے غلط اور احمقانہ فیصلوں کی تائید اور تمدید نہیں کریں گے ،لہذا یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ ٹرمپ کی سیاسی حکمت عملی سے انحراف کا اثر عالمی سیاست پر کس قدر اثر انداز ہوگا ۔نیا صدارتی منصب بائیڈن کے لئے ہر لحاظ سے ایک نیا چیلینج ثابت ہوگا کیونکہ کورونا وبا کے چلتے دنیا اقتصادی بحران کا شکار ہے ۔سیاسی بحران سے نجات ممکن ہے لیکن اقتصادی بحران سے نجات کی راہ نظر نہیں آرہی ہے ۔آیا بائیڈن کے پاس ایسا اقتصادی لائحۂ عمل موجود ہے جو دنیا کو اس اقتصادی بحران سے نجات دلا سکے ؟ایسے تمام تر سوالات کے جوابات دینا ابھی جلد بازی ہوگی مگر بائیڈن کی آمد کو امریکی سیاست میں خوش آئند تبدیلی سے تعبیر کیا جارہاہے ،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔بائیڈن امریکی عوام اور دنیا کی توقعات پر کتنے کھرے اترتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔اور بائیڈن کا وقت شروع ہوچکاہے !