از۔عارف نقوی

عارف نقوی

موت کا فرشتہ ایک موٹی سی خفیہ فائل لئے اپنے شکارکو ڈھونڈھتا پھر رہا تھا۔ فائل میں لا تعداد نام درج تھے۔ بچے، بوڑھے، کڑیل جوان،خوبصورت دوشیزائیں، جن کی شربتی آنکھوں، ریشمی زلفوں ، پھول سے نازک ہونٹوںاور مرمریں گداز بانہوں اور عنفوانِ شباب کی تعریف میںشاعر غزلیں اور نظمیں لکھتے رہتے اور نوجوان قدموں کے تلے بچھے رہتے تھے۔ لمبی لمبی ڈاڑھی والے بزرگ نما لوگ جو قبائیں پہنے ، پلائو ، زردہ کھاتے ہوئے مقدس مقامات پرواعظ دیا کرتے تھے، نارنجی کپڑوں میں ملبوس اورتقدس کی مالائیں ڈالے لوگ جنہوں نے اگلے سات جنموں کے لئے سونے کے پوتر محلوںمیں اپنی جگہیں محفوظ کرلی تھیں۔ لمبی لمبی ڈاڑھی اور سروں پر گول چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں لگائے کاہن جو خود کو دنیا کی سب سے نرالی مخلوق سمجھ رہے تھے۔ اورلمبے لمبے لبادوں میں ملبوس سونے کے کراس لئے ہوئے مقدس بزرگ جولاکھوں کے مجمع میں نصیحتیں کرتے رہتے تھے۔بڑے بڑے سیاسی رہنما جو دن رات لوگوں کو آپس میں لڑاتے اور فضا میں نفرت کا زہر گھولتے رہتے تھے۔ اور بھی بہت سے لوگ تھے اس کی فہرست میں۔ غریب ، امیر، ہٹے کٹے اور اپاہج۔ لیکن اسے اس وقت ایک خاص شخص کی تلاش تھی۔


اس کے افسر نے حکم دیا تھا کہ ایک خاص روح کو سلب کرکے پیش کرے۔ کیونکہ اللہ تعلی کا یہی حکم ہے۔ کیونکہ وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اب آسمان پر کمندیں پھینک رہا ہے۔ اس لئے وقت آگیا ہے کہ اس خاص طاقتور روح کو پکڑ کر اس کے قدموں میں پیش کیا جائے۔ تاکہ اس مجرم کو اپنی اوقات کا پتہ چلے اور اس سے قیامت سے قبل ہی سوال و جواب ہو سکے۔ لیکن موت کے فرشتے کو اس کے افسر نے جو شناخت بتائی تھی وہ کسی سے نہیں ملتی تھی۔وہ پریشان تھا کہ کہیں وہ کسی غلط آدمی کی روح نہ قبض کر لے۔
دسمبر کا مہینہ تھا۔ جاڑے اپنے شباب پر تھے۔ سبزہ زاروں پر بوڑھاپا طاری تھا۔ پیڑ وں سے ہرے ہرے پتے غائب ہو چکے تھے۔ لگتا تھا عریاں پیڑوںکی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ یا انہیں برف کی افشاں سے سجا دیا گیا ہے۔ کہیں حد نظر برف کی چوٹیاں نظر آتیں، کہیں کہرے کی گھٹن سے گھبرا کی وہاں سے بھاگنے کو جی چاہتا۔وہ چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے اس گھٹن سے نجات پاکر اپنے افسر کے پاس حاضری دے اور اپنی کار کردگی کی رپورٹ پیش کرے۔


وہ چین کے شہر ہووان میں گیا۔ سڑکوں پر پھرتا رہا۔عجیب عجیب قسم کی شکلیں دیکھیں ، آوازیں سنیں، جنوبی کوریا گیا، جاپان اورتائیوان گیا ۔ پھرہندوستان پہنچا اور دلّی کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں گھومتا رہا ۔اس نے سن رکھا تھا کہ دلّی ایک خاص شہر ہے۔یہیںسمراٹ اشوک کی لاٹ ہے۔قطب مینار، لال قلعہ، جامع مسجد، برلا مندر اور انڈیا گیٹ ہیں۔ شاندار راشٹر پتی بھون ہے اور عالیشان سڑک جن پتھ ہے جہاں ہر سال جنوری میں فوجی مارچ ہوتے ہیںاور شاندار جھانکیاں نکلتی ہیں۔یہیں سے ساڑھے آٹھ سو سال قبل ایک دوشیزہ رضیہ نے حکومت کی تھی۔ لیکن اب ہر طرف سناٹا تھا۔ وہ نئی دہلی کے مرکز میں کناٹ پلیس پہنچا جہاں ہمیشہ دُکانیں جگمگایا کرتی تھیں اور رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس حسینائیں اور ان کے چاہنے والے منڈلاتے رہتے تھے۔ جس طرف جاتا اسے کھانستے، چھینکتے، گھٹی گھٹی سانسیں لیتے سردی سے ٹھٹھرتے اور کوہرے اور زہریلی دھندھ سے نالاں لوگ نظر آئے۔ جن کے منہ نقابوں سے ڈھکے تھے ۔ اور دانت سردی سے کٹکٹا رہے تھے۔ اس نے ایک بار پھر اپنی فائل پر نظر ڈالی۔’ یاللہ کہاں چھپ گیا ہے یہ شخص؟ کس بھیس میں ہے وہ؟ کونسی الکٹرانک نقاب اوڑھے ہوئے ہے‘؟ وہ گھبرا کر وہاں سے نکلا اور یورپ میں پہنچ گیا۔ اٹلی ہی سب سے مناسب جگہ ہے۔ جس کا دبدبہ کسی زمانے میں سارے یورپ میں اور مصر تک چھایا رہا تھا۔ خاص طور سے روم ، جس کے شعلوں سے کبھی نیرو لطف اندوز ہوا تھا۔ اس نے سوچا۔ مجھے جو حلیہ بتایا گیا ہے اس قطع کے لوگ یہاں بہت ہوں گے۔ لیکن یہ کیا یہاں تو وہ بار جہاں لڑکے لڑکیاں کمر میں ہاتھ ڈالے ناچتے تھے، بوس و کنار میں مصروف رہتے تھے خالی ہیں۔ادھ ننگی عورتیں جو اپنے جسم کے ہر اعضا کی نمائشیں کرتی تھیں، کہیں چھپی بیٹھی ہیں۔ سڑکیں سنسان پڑی ہیں۔اسکول، کالج بند ہیں، بازاروں میں ویرانگی ہے۔وہ ایک بڑے سے چوک پر پہنچا ۔ جہاں خوش نما لباس میں ملبوس کوئی بزرگ ہاتھ میں جگمگاتا ہوا سونے کا کراس لئے واعظ دے رہا تھا اور کورونا کے جراثیم سے انسانوں کی حفاظت کی دعا مانگ رہا تھا۔لیکن میدان آج خالی تھا۔ بس واعظ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ان صدائوں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔


وہ وہاں سے چل کر جرمنی میں پہنچ گیا۔ شاید یہ جگہ سب سے مناسب ہے۔ جرمنی ہی یورپ میں سب سے ترقی یافتہ ملک ہے ۔ یہاں غریب سے امیر تک ہر طرح کے لوگ ہیں۔ بڑے بڑے سائنسداں، فنکار، اداکار، مصور، کھلاڑی رنگ برنگی حسن میں ڈوبی دوشیزائیں اور نوجوان اور تگڑے تگڑے پہلوان ہیں۔ اس ملک کے سرمایہ دار دوسرے ممالک میں اپنے ٹینک اور دوسرے اسلحہ جات بیچتے ہیں۔ اپنی دوائوں، کاروںوغیرہ کی پیداواروں کو چین ، ہندوستا ن اور دیگر ممالک میں منتقل کر کے بھاری منافعے کماتے ہیں۔ یہ ملک جو اپنی تاریخ، اپنی سائنس، فنون، فلسفے پر فخر کرتا ہے۔ جس نے ۱۹۱۴ء میں دنیا کو چنے چبوا دئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ، فرانس، روس اور امریکہ کے چھکّے چھڑادئے تھے اور دندناتا ہوا یورپ اور ایشیا کے دور دور مقامات پر پہنچ گیا تھا۔ اوربالکل مٹ جانے کے بعد پھر سے یورپ کا سب سے مالدار اور ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے ۔

میرا شکار ضرور یہیں ہوگا۔ اس کی پہچان ہے: ’سب سے طاقت ورپہلوان نما انسان، مغرور، سب سے دولت مند، شاطر، قوموں کو لڑوانے اوردنیا کو لوٹنے والا‘۔ فرشتے نے سوچا۔وہ راجدھانی برلن کی سڑکوں پر پھرتا رہا۔ تاریخی برانڈن برگر پھاٹک پر پہنچا جہاں ہٹلر کی فوجیں مارچ کرتی تھیں اور بعد میں دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ وہ عالمی شہرت کے پرگامان میوزم میں پہنچا ، جہاں پرگامان تہذیب کے نادر نمونے رکھے تھے۔ وہ شہر کے مرکز میںٹی وی ٹاور کے ریوالونگ ریستوراں میں پہنچا ۔ شاید اس کا شکار یہاں سے پورے شہر کا نظارہ کر رہا ہو، مگر وہ بھی بند تھا۔ دُکانیں، سڑکیں، نائٹ کلب، پارک ، سوئمنگ پول سب سنسان پڑے تھے۔ ہاں اس کے جیسے سیکڑوں ہزاروں موت کے فرشتے وہاں ٹہل رہے تھے۔ اور اسے تیز نظروں سے گھو رہے تھے۔ یہ ان کا حلقہ تھا۔ اس کا وہاں کیا کام ہے۔

وہ شہر سے کچھ کلو میٹر دور ایک بڑے سے بنگلے کے سامنے پہنچا۔ ایک درجن کاریںوہاں کھڑی تھیں۔ لیکن کو ئی ڈرائیور نہیں تھا۔ پھاٹک پر کوئی دربان بھی نہیں تھا۔ہر طرف حفاظت کے لئے برقی کرنٹ پھیلے ہوئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑے سرمایہ دار کا گھر تھا۔ جس نے ہتھیاروں کی تجارت سے کھربوں ڈالر کمائے تھے اور اس بنگلے میں اپنی ادھیڑ بیوی اور ایک درجن جوان داسیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ موت کا فرشتہ بنگلے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ کہیں سے آواز آئی :

’’صاحب گھر پر نہیں ہے۔ بڑے صاحب سے ملنے واشنگٹن گیا ہے۔ صاحب بڑے صاحب سے ملنے امریکہ گیا ہے۔ پھر آنا۔‘‘

موت کا فرشتہ پریشان تھا۔ کیا کرے ۔ اس کا وقت نکلتا جا رہا تھا۔ اسے اپنے افسر کو جواب دینا تھا۔اور اس کے افسر کو اپنے رب کے سامنے۔ لیکن اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ وہ جلدی سے واشنگٹن پہنچ گیا۔اس شہر کو دیکھنے کی وہ مدت سے آرزو کر رہا تھا۔ اس نے سنا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے اہم شہر ہے۔ یہیں سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہاں دولت اور سروت کی بھرمار ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں ہیروشیما پر ایٹم بم پھیکنے کا فیصلہ بھی یہیں سے ہوا تھا۔ جس میں لاکھوں انسان مرے تھے۔ فلسطین میں عربوں کی زمین چھین کریوروپین یہودیوں کو دینے کا فیصلہ بھی یہیں سے کیا گیا تھا جو آج تک فساد کا باعث بنا ہوا ہے۔ وہ خوش تھا کہ اب وہ صحیح مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا شکار، جس کی روح نکالنا ہے ضرور یہاں مل جائے گا۔ لیکن وہاں بھی ہر طرف سناٹا تھا۔ شہر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ لوگ منہ ڈھانکے اسپتالوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔وہ بھی ان میں شامل ہو گیا۔ شاید اس کا شکار کسی اسپتال میں مل جائے۔

اسپتال میں اتنے لوگ بھرے ہوئے تھے کہ پہچاننا مشکل تھا۔ ہر رنگ، ہر وضع کے لوگ، کھانستے، چھینکتے، اکھڑی اکھڑی سانسیں لیتے لوگ ۔ وہ پریشان تھا کس کی روح کو سلب کرے، کسی سوٹ بوٹ والے کی، کسی ڈاڑی والے کی، کسی دھوتی شلوکے والے کی، کس کی؟ جو شناخت اسے دی گئی تھی وہ یہاں بھی نہیں مل رہی تھی۔ہر شخص اپنے منہ کو ماسک سے ڈھکے تھا، خوبصورت خوبصورت جوان نرسین اور ڈاکٹرنیاں بھی کہ پہچاننا ممکن نہیں تھا۔ لوگوں کے منہ پر سے ماسکیں ہٹانے کی اجازت نہیں تھی۔اس کا شکار نہ جانے کہاں چھپا بیٹھاتھا۔ نہ جانے کس ماسک کے پیچھے اور کس الکٹرانک پردے کے پیچھے؟۔

وہ پریشان ہو کر اسپتال سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی پھٹے کپڑے پہنے، کھانستا، چھینکتا اور عجیب عجیب طرح سے گھٹی گھٹی سائسیں لیتا اور لڑکھڑاتا ہو ا آتا نظر آیا۔ دیکھنے سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ ریڈ اینڈین ہے یا افریقی نسل کا یا یوروپین نسل کا۔ عیسائی،یا یہودی، مسلمان یا ہندو،یا غیر مذہب۔موت کے فرشتے نے چاہا کہ اپنی فائل میں اس کا حلیہ تلاش کرے ۔اس نے بار بار اپنی فائل الٹ پلٹ کر دیکھی ۔ لیکن اس حلیہ کا کوئی شخص اس میں نہیں تھا۔ وہ جس آدمی کو ڈھونڈھ رہا تھا وہ تو دنیا کا سب سے تگڑا، سب سے با اثر، سب سے مغرور ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ تو سب سے غریب ، کمزور اور مریل لگتا ہے۔ وہ کیا کرے؟ فرشتے کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں چھوٹنا شروع ہو گئیں۔ وقت اب اس کے پاس نہیں بچاہے۔ وہ کیا کرے؟

اس نے مسکرا کرا پنے ماتھے پر سے پسینے کی بوندیں پونچھیں پھر ا س مریل آدمی کی طرف دیکھا۔

اچانک تڑ اخ سے آواز ہوئی۔اس آدمی کی لاش فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ موت کافرشتہ اس کی روح کو لے کرجا چکا تھا۔

نرسیں اور ڈاکٹر اس آدمی کی طرف دوڑے لیکن پھر ٹھٹھک کر دور کھڑے ہو گئے۔ آدمی کے منہ سے پھین نکل رہا تھا۔ کورونا کے جراثیم ان کی طرف بھی بڑھ رہے تھے۔