حکیم ایازا لدین ہاشمی 


ابھی افغانستان کی صورتحال پوری طرح سے واضح نہیں ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور صدارتی محل میں طالبان کے داخل ہونے اور قرآن کی آیت ’ اذا جاء نصر اللہ والفتح …‘ کی تلاوت کے بعد طالبان نے باقاعدہ طور سے افغانستان پر اپنے قبضے کا اعلان ضرور کر دیا ہے، طالبان کے سلسلہ میں بھی کئی طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔طالبا ن کی پہلی پریس کانفرنس بھی اس سمت میں ہوچکی ہے جس میں انہوںنے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ پہلے والا طالبان نہیں ہے، بلکہ اب اس کی شکل و صورت بدلی ہوئی ہے۔ وہ دنیا کے ساتھ مل کر کے کام کرنا چاہتا ہے۔ خواتین کے شرعی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے، وغیرہ وغیرہ،

لیکن جو خبریں آرہی ہیں وہ اس کی تصدیق نہیں کرتی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک دن میں ہوگیاکہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ ہوگیا؟ آج سے دو سال پہلے دوحہ میں ہوئے امریکی سمجھوتے میں طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت ملنے سے واضح ہوگیا تھا کہ امریکہ نے طالبان کے مراکز کی منظوری قطر کو دے دی تھی ۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ امریکہ ہر حال میں اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ طالبان کے مفاد کا تحفظ کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان سے امریکہ کے چلے جانے کے بعد بھی اس کے مفاد کی حفاظت ہوسکے، کیونکہ پہلے امریکہ کو اپنے مفادات کیلئے بڑی قیمت چکانی پڑتی تھی، لیکن شاید اب ایسا نہ ہوجس کی امریکہ امید لگائے بیٹھا ہے ، جبکہ روایات اور حقائق اس کے برعکس ہیں ۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ امریکہ کو طالبان کے آگے سرینڈر کیوں کرنا پڑا؟ تو اس کا سیدھا جواب یہی ہے کہ افغان کی سابقہ حکومتیں امریکی مفادات کا تحفظ نہ کر سکیں ، جس کیلئے امریکہ کو یہ سب کرنا پڑا ۔پھر چاہے وہ کرزئی کی حکومت رہی ہو یا اس سے پہلے یا پھر اس کے بعد حالیہ اشرف غنی کی حکومت ،سب نے امریکہ سے زیادہ چین ،روس اور ایران جیسے ممالک سے ڈیل کیا اور یہ ان کی مجبوری بھی تھی ، کیونکہ وہ بہر حال اپنے عوام کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے ۔سابقہ حکومتوں پر بدعنوانی کے سنگین الزامات تھے ۔تاہم افغانستان پوری طرح سے دوحصوں میں بٹ چکا تھا ، ایک پشتوں کا علاقہ جہاں ترقی زیادہ ہوئی تھی ، لیکن لوگوں میں ناردن الائنس کو لے کر کافی غصہ تھا ۔ دوسری طرف وہ اقلیتی علاقہ تھے جہاں ترقیاتی کام کافی کم ہوئے تھے اس لئے وہ اپنی سرکاروں سے  کافی ناراض تھے ۔ کرپشن اپنے شباب پر تھا۔ ہر طرف رشوت کی خبریں آرہی تھیں ، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ شہروں میں لوگوں نے کافی کام کیا تھا۔ ہمارے ملک بھارت نے روڈ سے لے کر پارلیمنٹ اور تعلیمی و طبی مراکز کافی قائم کئے تھے ۔ امریکی ڈیولپمنٹ ایجنسی نے بھی شہری علاقوں میں کام کیا ۔ لڑکیوں کا تعلیم کی جانب رجحان کافی بڑھا اور یہ تب ہے جب گذشتہ چالیس سالوں سے یہاں کے حالات اچھے نہیں کہے جا سکتے ہیں ۔ ایک لڑکی نے ہی طالبان کا انڑویو لیا ، جبکہ اس سے پہلے دو لڑکیوں کا قتل ہو چکا تھا، جس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ لڑکیوں نے تعلیم کے میدان میں کس قدر ترقی کی ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد کیا ہوگا؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ طالبان کے آنے سے افغانستان بذات خوددو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک حصہ تو شہری لوگوں پر مشتمل ہے جو  ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آگے کیا کچھ ہونے والا ہے ۔وہ طالبان کے نئے وعدوں پر یقین نہیں کر پارہے ہیں ۔ دوسرا ڈر یہ بھی لگا ہوا ہے کہ شہری علاقوں میں رہنے والوں کو پاکستان سے نفرت ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ طالبان پاکستان کے ذریعہ آپریٹ کریں گے جو بہر حال ان کو قبول نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے ہاتھ میں جانے سے ان کو اپنی بربادی نظر آتی ہے۔ ان کو ایسا لگتا ہے کہ کہیں پاکستان طالبان کو آلہ کار نہ بنا کر ان کی زندگی اجیرن کر دے ۔ 

طالبان کیا چاہتے ہیں ؟طالبان نے فی الوقت اپنا لبرل چہرہ پیش کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ موجودہ سعودی حکومت کا ماڈیول پیش کرنا چاہتے ہیں ، طالبان کی ایک ہی شرط ہے کہ جو کچھ ہو وہ شریعہ اور اسلامک کوڈ کے اندر ہی ہو ۔ طالبان نے لڑکیوں کو لے کر بھی بڑی بات کہی ہے اور وہ ان کو آزادی دینے کے حق میں ہیں ،لیکن وہ اپنے شریعہ کوڈ سے سمجھوتے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ وہ سرکار اور اسپتال میں لڑکیوں کو آگے لانا چاہتے ہیں لیکن ان کی شرط یہ ہے کہ خواتین کیساتھ خواتین ہی معاملہ کریں ۔ انہوں نے اپنی ہی سابقہ حکومت کے برعکس بینک آپریٹ کرنے کی بات بھی کہی ہے جو اچھی پہل ہے ،لیکن اس کیلئے انتظار کرنا ہوگا۔ ابھی کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبا ن کو سرکار چلانے کیلئے ویسے لوگ کہاں سے ملیں گے جو سعودی یا دوسرے مسلم ممالک کے پاس ہیں ؟ اس کا جواب ابھی شاید ہی کسی کو سمجھ میں آئے کیونکہ یہ بات ابھی تک سمجھ سے باہر ہے ۔ ان کے پاس مذہب ہے اور ان کا مذہبی ایجنڈا بھی اسٹرانگ ہے ،لیکن ڈیولپمنٹ کا ایجنڈا نظر نہیں آ رہا ہے ۔

جہاں تک سعودی عرب کی بات ہے تو وہاں سیاسی پاور’ ہاوس آف سعودی‘ کے پاس ہے جو مذہبی رہنما نہیں ہیں ۔وہ بڑی بڑی کمپنیوں کو ملک کی ترقی کیلئے ہائر کرتے ہیں یہی حال ایران اور دوسرے عرب ممالک کا ہے ۔ان کے پاس کئی دہائی کا ایک طویل تجربہ ہے۔ وہاں بڑےبڑے تاجر ہیں۔ ان کے پاس تیل بھی ہے۔ ان کی اپنی ایک معاشی سمجھ ہے جو چیز یہاں دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ اس لئےیہ سب تسلیم کررہے ہیں کہ ان کا پورا انحصار پاکستان پر رہے گا اور پاکستان ان کو پیچھے سے کنٹرول کرے گا اور اس میں اس کا اپنا فائدہ ہوگا۔ شہری لوگوں کو یہی ڈر ہے کہ یہ سرکار پاکستان کی حامی ہوگی اور قومی مفاد کو بروئے کار نہیں لا پائے گی ، لیکن دیہی علاقوں میں لوگ طالبان کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میںعالم زیادہ ہیں اور ان کو لگ رہا ہے کہ وہاں اسلامک رول آرہا ہے۔

 طالبان کے پاس آرمی کا ایک مسئلہ ہوگا ۔ اس معاملہ میں پاکستان کے پوری طرح سے دخیل ہونے کے امکانات موجود ہیں، کیونکہ گوریلا اور ڈیفنس بورڈ میں فرق ہے ۔ گوریلے کا تجربہ طالبان کو بہتر ہے لیکن ڈیفنس کے معاملہ میںوہ کافی کمزور ہے ۔آرمی کے اپنے قائدہ قانون ہیں۔ سڑکوں پر ڈنڈا لے کر چلنے سے ملک نہیں چلنے والا ہے۔ خاص طور سے ایسے ملک میں جہاں اسلحہ کی بہتات ہو اور بڑی تعداد میں لوگ ٹرینڈ ہوں۔ طالبان کی کوشش ہے کہ ان کو عالمی مقبولیت مل جائے۔ ان کی معیشت اس وقت اچھی نہیں ہے۔ اگر پشتون نیشنل ازم پھیلا تو ایک اور دقت کھڑی ہوجائے گی ۔جہاں تک شریعہ قانون کا مسئلہ ہے تو امریکہ کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا ، ورنہ وہ تیل ،گیس اور دوسری معدنیات نکالے گا کیسے ؟لیکن طالبان کے اپنے اندر کافی گروپ ہیں ۔ایک سافٹ ہے تو دوسرا ہارڈ اور دونوں کو ملا کر چلنا آسان نہیں ہوگا اور پھر ان میں چھوٹے چھوٹے کئی گروپ ہیں۔ کچھ ڈسپلن ٹائپ کے لوگ ہیں،تو کچھ دوسرے بھی ہیں، کیسے تال میل بنے گا؟ جہان تک منرل اور مائنس کا مسئلہ ہے تو علاقائی چاہیں گے کہ ان کا قبضہ بنا رہے ۔ اس کیلئے آرمی کی ضرورت ہوگی ، یہ پاکستان کی مدد کے بغیر کیسے ہوگا ؟ یہ بھی ایک سوال ہے ۔افغانستان کو پاکستان کے حوالے امریکہ کرکے گیا ہے اس لئے پاکستان خوش ہے۔ چونکہ گذشتہ حکومت چین، روس اور ایران سے ڈیل کرتی تھی اس لئے اس کو ہٹا کر طالبان کو امریکہ لایا ہے تاکہ امریکی مفاد کی حفاظت ہوسکے ۔ پاکستان کی اپنی مجبوری ہے کہ اس کو چھ بلین ڈالر کا لون آئی ایم ایف سے چاہئے اور دوسری ایف اے ٹی ایف سے اس کو باہر آنا ہے اور یہ امریکی مدد کے بغیر ناممکن ہے ، چین پاکستان کا معاون پہلے سے ہے۔ اگر پاکستان کو لون نہیں ملا تو اس کی اکنامی کریش کر جانے کا پورا امکان ہے، اس لئے دونوں ایک دوسرے کے پورک ہوں گے ۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان سنٹرل ایشیا میں اس کی مدد کرے ، اور امریکہ نے اس کیلئے ایک گروپ کی تشکیل بھی دی ہے جس میں پاک ،افغانستان اور ازبیک  شامل ہیں ۔

یورپ کی ایک سو پچیس سال سے کوشش ہےکہ سنٹرل ایشیا میں اس کا کوئی اپنارول ہو ۔ ایران، افغان اور چین کے اپنے مفاد ہیں روس کا اپنا مفاد ہے ، اس لئے امریکا چاہے گا کہ یہاں امن رہے تاکہ اس کا مفاد محفوظ رہے ۔ مانا یہی جارہا ہے کہ معاہدے کے جو سیکریٹ کلاز ہیں اس میں امریکی مفاد کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ۔ ایران کی بھی کوشش ہوگی کہ طالبان سے رشتے بنائے جائیں اور طالبان امریکی مفاد کو پر نہ کر پائیں ، جس طرح امریکا چاہتا ہے ۔پاکستان کا میجر رول ہونے کی صورت میں ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ طالبان نے وعدہ کیا ہے لیکن کیا پاکستان اس کی اجازت دے گا یہ ایک اہم سوال ہے ۔ بھارت نے تمام ترقیاتی کاموں کیساتھ روڈ کو ایران سے کنکٹ کیا ہے۔ چابہار پورٹ ایک اور مسئلہ ہے ۔اس لئے ہمیں خاموشی کیساتھ صرف اپنی سرکار کیساتھ خارجہ پالیسی کے اس نازک موڑ پر کھڑے رہنا ہے تاکہ ملکی مفاد محفوظ رہے۔ 


(مضمون نگار آل انڈیا قومی تنظیم کے رکن اور پیس آل ویز کے چیئرمین ہیں )