عالمی طاقتوں نے شام میں جنگی کارروائیاں روکنے اور محصور شہروں اور قصبوں میں انسانی امداد بہم پہنچانے سے اتفاق کیا ہے مگر وہ مکمل جنگ بندی یا روس کی فضائی بمباری رکوانے میں ناکام رہی ہیں۔

جرمن شہر میونخ میں شام رابطہ گروپ میں شامل سترہ ممالک نے جنگ زدہ ملک کے متحارب فریقوں میں امن مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے کئی گھنٹے تک غور کیا ہے۔امریکا اور روس سمیت ان ممالک نے ایک مرتبہ پھر شرائط پوری ہونے کی صورت میں شام میں سیاسی انتقال اقتدار کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میونخ اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ”ابھی صرف کاغذ کی حد تک وعدے کیے گئے ہیں۔ہمیں تو آیندہ چند روز میں برسرزمین اقدامات درکار ہیں۔سیاسی انتقال اقتدار کے بغیر امن کا حصول ممکن نہیں ہوگا”۔

اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ ”ان کا ملک شام میں فضائی حملے بند نہیں کرے گا اور جنگی کارروائیاں روکنے کا اطلاق داعش اور القاعدہ سے وابستہ گروپ النصرۃ محاذ پر نہیں ہوتا ہے۔اس لیے ہماری فضائی فورسز ان تنظیموں کے خلاف کارروائی جاری رکھیں گی”۔

دوسری جانب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ روس نے اپنے فضائی حملوں میں ان دونوں تنظیموں کو کم ہی نشانہ بنایا ہے اور اس کے لڑاکا طیارے مغرب کے حمایت یافتہ اعتدال پسند باغی گروپوں پر بمباری کررہے ہیں جو شامی صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز کے خلاف لڑرہے ہیں۔

سرگئی لاروف نے کہا کہ ”جنیوا میں جلد سے جلد امن بات چیت بحال ہونی چاہیے اور اس میں شامی حزب اختلاف کے تمام گروپوں کو شرکت کرنی چاہیے”۔ان کا کہنا تھا کہ جنگی کارروائیاں روکنا ایک مشکل کام ہوگا۔واضح رہے کہ شامی حزب اختلاف نے روس کی فضائی بمباری رکنے تک اسد حکومت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ ”اگر روس پیش قدمی کرتی ہوئی شامی فورسز کی مدد میں کیے جانے والے فضائی حملے روک دے تو اسی صورت میں لڑائی کو بھی روکا جاسکتا ہے”۔

سفارت کاروں نے خبردار کیا ہے کہ روس نے اب تک بشارالاسد کی اقتدار سے رخصتی میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے اور وہ ایک فوجی فتح کے مقصد کے حصول کے لیے کارروائیاں کررہا ہے۔

روسی وزیراعظم دمتری میدویدیف نے جمعرات کو اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں مذاکرات کے ذریعے شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ کے خاتمے میں ناکام رہتی ہیں تو پھر اس کی وجہ سے ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے یا پھر عالمی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔

شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری خانہ جنگی اور امریکا کی قیادت میں اتحاد اور روس کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ اندرون اور بیرون ملک دربدر ہیں۔اس خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کررکھا ہے۔