راولپنڈی :  ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ باچا خان یونیورسٹی حملے میں 4 دہشت گرد اور 4 ہی سہولت کار تھے۔ حملے کا مرکزی کمانڈر عمر اور اس کا نائب افغانستان کے ایک علاقے میں بیٹھے تھے اور وہیں سے حملے کو کنٹرول کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد سے اب تک 5 سہولت کاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو باہر کھڑے ہیں میڈیا والے ان کے چہرے دیکھیں اور قوم کو بھی دکھائیں،کبھی نہیں کہا کہ حملے میں افغانستان کی حکومت ملوث ہے۔

تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی عاصم سلیم باجوہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ افغانستان کے ایک علاقے سے کنٹرول ہو رہا تھا۔ حملے کے دوران تقریباً دس کالز کی گئی تھیں جن میں سے ایک کی ریکارڈنگ بھی پریس کانفرنس میں سنائی گئی۔ عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ حملے کے تین سہولت کار ریاض، ضیاءاللہ اور نور اللہ پکڑے جا چکے ہیں جبکہ ایک سہولت کار کی گرفتاری کیلئے تحقیقات جاری ہیں جس کا ابھی نام نہیں بتایا جا سکتا۔ پریس کانفرنس کے دوران سنائی گئی کال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ یہ کال دہشت گرد اور ایک رپورٹر کے درمیان ہے، رپورٹ کا نام بتانا مناسب نہیں۔ دہشت گرد افغانستان کے علاقے سے کال رہا ہے جبکہ رپورٹر پاکستان میں اپنے موبائل فون سے بات کر رہا ہے اور دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ کال ذمہ داری قبول کرنے کیلئے ہے تو ریاست اپنی رٹ قائم کرےگی اور دہشت گردوں یہی انجام ہو گا ان کے خلاف آپریشن کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اس پورے حملے میں چار دہشت گرد اور چار سہولت کار تھے۔ دہشت گرد افغانستان میں تیار ہوئے اور طورخم چیک پوسٹ کے علاقے سے عام شہری کے طور پر بارڈر پار کر کے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرتے ہوئے مردان کے علاقے تک پہنچے۔ عادل نامی سہولت کار نے طورخم سے ان دہشت گردوں کو لیا اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے مردان لایا اور یہاں عادل اور ریاض نامی سہولت کاروں نے انہیں 2 گھروں میں ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ سہولت کار ریاض کے بیٹے ابراہیم کو بھی اس سارے واقعے کا پتہ تھا اسے بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

سہولت کار ضیاءاللہ بھی اسی علاقے کا ہے جس نے دہشت گردوں کی مدد کی۔ سہولت کار عادل مستری کا کام کرتا ہے جو یونیورسٹی میں کچھ دن پہلے مستری کا کام کر چکا تھا۔ سہولت کار عادل نے دہشت گردوں کو یونیورسٹی کے نقشے سے آگاہ کیا اور انہیں علاقے کی ریکی بھی کرائی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ذاکر ڈپٹی نے رکشہ خریدنے میں عادل کی مدد کی جسے بعد میں نور اللہ کے حوالے کر دیا گیا جو حملے کے روز دہشت گردوں کو گنے کے کھیتوں میں اتار کر گیا۔ حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ درہ آدم خیل سے خریدا گیااور اسلحہ لینے کیلئے بھی عادل، ریاض اور نامعلوم سہولت کار شامل رہے جبکہ ایک سہولت کار کی بیوی اور بھانجی بھی اسلحہ خریدنے میں شریک ہوئی۔ نامعلوم سہولت کار کی بیوی اور بھانجی کو چیکنگ سے بچنے کیلئے ساتھ رکھا گیا کیونکہ عموماً برقعہ پہننے والی خواتین کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کا کمانڈر وہی ہے جو فون کال پر حملے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔ امیر رحمان نامی دہشت گرد جنوبی وزیرستان کا باشندہ تھا جس کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ ڈی این اے کے ذریعے باقیوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کال میں یہ بتایا گیا کہ حملہ آور فدائی ہیں جن کے نام عمر، عثمان، علی محمد اور عابد ہیں۔