انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی نوعیت کی منفرد اور نئی رپورٹ میں، فلسطین میں یہودی بستیوں مین کام کرنے والی اسرائیلی اور بین الاقوامی کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی تمام سرگرمیاں ختم کرکے ان یہودی بستیوں کا بائیکاٹ کریں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی سرمایہ کاری اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے مختص اراضی کا رقبہ، یہودی بستیوں میں رہائشی علاقوں کے رقبے سے زیادہ بڑا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مغربی کنارے میں 20 صنعتی علاقے ہیں جن کا مجموعی رقبہ 1365 ہیکٹر (1 کروڑ 36 لاکھ 50 ہزار مربع میٹر) ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ” یہ کمپنیاں اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینی اراضی اور دیگر وسائل کی غیر قانونی ضبطی میں شریک ہوکر اس پر انحصار کرتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ ان امتیازی پالیسیوں سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں جو فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کو مراعات پیش کرتی ہیں”۔

رپورٹ میں بستیوں اور اس کے اطراف کے علاقوں میں تعمیرات کی اجازت میں برتے جانے والے امتیار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اوسلو معاہدے میں ان علاقوں کو Area C کا نام دیا گیا ہے جو مغربی کنارے کے 60 فی صد رقبے پر مشتمل ہے۔ اس ایریا میں تعمیرات کی اجازت کے لیے فلسطینیوں کی 94 فی صد درخواستیں مسترد کردی گئیں جب کہ یہودی بستیوں کی تعمیر کی اجازت معمول کے مطابق دے دی جاتی ہے”َ۔

رپورٹ میں عالمی بینک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ Area C میں فلسطینی اقتصادی سرگرمیوں پر عائد اسرائیلی پابندیوں کے سبب یہودی بستیوں کا وجود، فلسطینی معیشت میں سے 3 ارب ڈالر لوٹنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔

رپورٹ کی تیاری کے عرصے کے دوران بہت سی کمپنیاں آپریشن بند کرکے یہودی بستیوں سے نکل گئیں، ان کمپنیوں کو رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا میں اس کے منفی نتائج کا خوف تھا۔

اسرائیل کی تائید کرنے والے اداروں نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ واشنگٹن میں “دی اسرائیل پروجیکٹ ” کے نئے سربراہ جوش بلاک نے “العربیہ” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ سیاسی وابستگی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ بلاک کا کہنا تھا کہ یہودی بستیوں میں کام کرنے والی کمپنیاں فلسطینی معیشت کو نقصان نہیں پہنچا رہی ہیں، شماریات کے فلسطینی مرکز کے مطابق ان بستیوں میں 21 ہزار سے زیادہ فلسطینی ملازمت کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایک میڈیا آفیشل احمد بن شمسی نے اس نتیجے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ” قانون کی رو سے ملازمت کی فراہمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا علاج نہیں۔

دوسری بات یہ کہ آپ ایک فلسطینی خاندان کے طور پر تصور کریں، آپ کی زمین چھین لی گئی ہو، حکام آپ کو اپنی معیشت بہتر بنانے سے روک دیں یا اس مقصد کے لیے آپ کے آباؤاجداد کی سرزمین پر تعمیراتی پرمٹ نہ دیں، پھر ایک ادارہ بنادیں جس میں آپ کام کریں مگر وہ بھی ایک اسرائیلی سے کم تنخواہ اور کم قانونی تحفظ کے ساتھ”۔

ہیومن رائٹس واچ کا یہودی بستیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریکوں سے متعلق کوئی موقف نہیں ہے تاہم اس کا مطالبہ ہے کہ مصنوعات پر ایسے اسٹیکرز لگائے جائیں جن سے ان کا ذریعہ معلوم ہوسکے تاکہ صارفین اس کے خریدنے یا نہ خریدنے کا خود فیصلہ کرلیں، اور بستیوں میں تیار کردہ سامان کو کسٹم کی مثبت شرائط سے اس طریقے سے فائدہ حاصل نہ ہوسکے جس طرح اسرائیلی مصنوعات کو حاصل ہوتا ہے۔

امریکی کانگریس اب ایک قانون منظور کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کے تحت امریکی تجارتی مذاکرات کار دیگر ملکوں کے ساتھ کسٹم ایگرمنٹ طے پانے کی صورت میں اولین ترجیح کے طور پر بستیوں کے بائیکاٹ کی تحریکوں کی مخالفت پر مجبور ہوں گے۔