فیض آ باد میں فراق گورکھپوری کی یوم وفات کے موقع پر اردو بچاؤ تحریک کے تحت تعزیتی جلسہ منعقد

فیض آ باد : ترقی پسند اردو تحریک کے مشہور شاعر فراق گورکھپوری کی یوم وفات کے موقع پر اردو بچاؤ تحریک کے تحت تنظیم کے کیمپ دفتر پر تحریک کے نائب صوبائی صدر ڈاکٹر ریحان علوی بارہ بنکوی کی صدارت و ارشاد ربانی کی نظامت میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔اس موقع پر محمد شفیع نیشنل انٹر کالج ہنسور کے ٹیچر محمد اسلم خان نے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری نے اردو شاعری میں بے بہا کارنامے چھوڑے ہیں۔ جن میں ان کے بہت سے شعری مجموعے ان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ پچھلی رات، چراغاں، گل نغمہ، نغمہ ساز، شعلہ ساز، شعرستان، غزلستان اور روح کائنات وغیرہ نہایت مقبول شعری مجموعے ہیں۔ فراق شاعری کے لحاظ سے اپنے تمام مشمولات میں ایک ممتاز عہد کے شاعر ہیں۔تحریک کے نائب صوبائی صدر ڈاکٹر ریحان علوی بارہ بنکوی نےاپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ فراق کی شاعری میں ایک خصوصیت بہت اہم پائ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے عام طور سے شاعری میں اپنے اساتذہ کی شاعری کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنا الگ راستہ اپنایا اور یہی خصوصیت ان کے قبول عام کا سبب بنی ۔تحریک کے صوبائی جنرل سکریٹری ارشاد ربانی ہے کہ فراق گورکھپوری نےاپنی ساری زندگی اردو کی بقاء اور ترقی کے لئے وقف کر دی تھی۔انکی آخری خواہش تھی کہ حکومت ہندی کے ساتھ اردو کی بھی سرپرستی کرے ۔حکومت کو چاہیے کہ فراق گورکھپوری کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے قدم اٹھاۓ اور سہ لسانی فارمولہ کے تحت درجہ آٹھ تک لازمی کرے۔مولانا اشرف علی نے کہا کہ فراق ہندوستانی ہیں اور اردو شاعری کی روایت کے با شعور وارث، اس لئے فراق کے کلام میں یہ رچاؤ ایک طرف ہندو آرٹ سے آیا جس میں پیکر تراشی مادی کثافت سے رور ہے۔اس موقع پر منظر خان،ریاض خان،اشتیاق خان،سیما خان،جاوید انصاری،نعمت اللہ،ہری اوم وغیرہ حاضرین شریک تھے۔ تنظیم کے کیمپ دفتر پر تحریک کے نائب صوبائی صدر ڈاکٹر ریحان علوی بارہ بنکوی کی صدارت و ارشاد ربانی کی نظامت میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔اس موقع پر محمد شفیع نیشنل انٹر کالج ہنسور کے ٹیچر محمد اسلم خان نے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری نے اردو شاعری میں بے بہا کارنامے چھوڑے ہیں۔ جن میں ان کے بہت سے شعری مجموعے ان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ پچھلی رات، چراغاں، گل نغمہ، نغمہ ساز، شعلہ ساز، شعرستان، غزلستان اور روح کائنات وغیرہ نہایت مقبول شعری مجموعے ہیں۔ فراق شاعری کے لحاظ سے اپنے تمام مشمولات میں ایک ممتاز عہد کے شاعر ہیں۔تحریک کے نائب صوبائی صدر ڈاکٹر ریحان علوی بارہ بنکوی نےاپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ فراق کی شاعری میں ایک خصوصیت بہت اہم پائ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے عام طور سے شاعری میں اپنے اساتذہ کی شاعری کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنا الگ راستہ اپنایا اور یہی خصوصیت ان کے قبول عام کا سبب بنی ۔تحریک کے صوبائی جنرل سکریٹری ارشاد ربانی ہے کہ فراق گورکھپوری نےاپنی ساری زندگی اردو کی بقاء اور ترقی کے لئے وقف کر دی تھی۔انکی آخری خواہش تھی کہ حکومت ہندی کے ساتھ اردو کی بھی سرپرستی کرے ۔حکومت کو چاہیے کہ فراق گورکھپوری کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے قدم اٹھاۓ اور سہ لسانی فارمولہ کے تحت درجہ آٹھ تک لازمی کرے۔مولانا اشرف علی نے کہا کہ فراق ہندوستانی ہیں اور اردو شاعری کی روایت کے با شعور وارث، اس لئے فراق کے کلام میں یہ رچاؤ ایک طرف ہندو آرٹ سے آیا جس میں پیکر تراشی مادی کثافت سے رور ہے۔اس موقع پر منظر خان،ریاض خان،اشتیاق خان،سیما خان،جاوید انصاری،نعمت اللہ،ہری اوم وغیرہ حاضرین شریک تھے۔