سہیل کاکوروی

شافع سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ قومی آواز میں تھے اور میں اپنی انجمن ادبی منچ کی خبریں برائے اشاعت قومی آوازمیں دینے جاتا تھا،مجھ سے اہم ناقدمرحوم شہنشاہ مرزا نے کہا کہ آپ وہاں خبر شافع قدوائی کو دیا کیجئے وہ خبرکی اہمیت سمجھ کر شائع کریں گے اور حسن اتفاق سے شافع مل گئے اور واقعی خبر بالکل اسی انداز میں شائع ہوئی جس طرح کا یقین شہنشاہ مرزا نے کیا تھا۔اس وقت شافع سے جو گفتگو ہوئی اس میں ان کا یہ وعدہ شامل تھا کہ وہ کسی جلسے میں ہندی اردو ادیبوں کی میری انجمن میں ضرور آئیں گے۔

پہلی ہی ملاقات میں مجھے احساس ہوگیا کہ وہ ابھی جڑ پکڑ رہاہے وہ شجر مضبوط بھی ہوگا اور سایہ دار بھی،اس کے بعد ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے مذاکروں میں شافع کا اظہار خیال سنا اور ان کی تنقیدی شعور کی پرتیں کھلتی رہیں،پھر وہ علی گڑھ چلے گئے اور ان کی انگریزی تحریر دیکھنے کا اتفاق ہوا اور اردو پر ان کا کامل عبورتو کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ وہ خانوادۂ عبد الماجد دربادی کے ایک فرد ہیں اور ان کے گھر کے درو دیوار میں عالماب بے بدل کے انفاس جذب ہیں لیکن انگریزی میں نئی اور انوکھی تراکیب کا وضع کرنا اور انگریزوں کا اسے قبول کرلینا واقعی حیرت انگیز ہے،اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہر سطح پر ہوا۔عصبیت کا ان کی زندگی میں کوئی ذکر نہیں، وہ کسی بھی کتاب کو اس کی اہمیت کے مطابق اپنے قلم سے دور تک پہنچا دیتے ہیں اور ان کی تحریرکا وقار اپنی اہمیت کو خود منوادیتا ہے۔

وہ کوشش کرتے ہیں کہ اگر ان کے کسی عزیزیا قریبی دوست کو ان کی ضرورت ہے تو اس کو زیربار نہ کریں ،دوبارہ وہ میری کتابوں پر اظہار خیال کرنے آئے، میری دیرینہ خواہش کے مطابق تو بہت خیال کرتے ہوئے اپنے کسی دوسرے پروگرام سے میرے پروگرام کو لنک کردیا،یہ تومعمولی ہے،لیکن بہت بڑی بات ہے کہ بہت سلیقے سے وہ میراخرچ بچانے کے لئے فیصلہ کررہے تھے اور وہ ظاہر نہیں ہورہاتھا، وہ بہت دلچسپ گفتگو کرتے ہیں اور اس میںاعلیٰ سطح کے اقوال اس طرح شامل ہوتے ہیں کہ وہ گفتگو مہر تاباں کی تشکیل کر دیتی ہے جس کی کرنوں سے فکر روشن ہوجاتی ہے۔شافع کے الفاظ کے گلہائے رنگا رنگ نے کئی گلشن آباد کردئیے ہیں انہوں نے علم حاصل کیا ہے اور بہت دل سے اس کی توسیع کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ ایک صدر ہیں جس مقام تک پہنچ کر ایک اطمینان انسان میں جمود پیدا کردیتا ہے،لیکن ان کا بحردماغ اپنی موجوں میں تلاطم سموئے ہے،اوریہ خدا کرے بڑھے اور کبھی نہ رکے،مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے انہیں اقبال ایوارڈ سے نواز کر سمان کو معزز بنادیا ہے۔اگر کلام غالب گنجینۂ معانی کا طلسم ہے تو شافع کی تحریرں گنجینۂ مفاہیم کی درخشندگی ہیں،اگر فلسفہ اقبال اردو کاافتخار ہے تو شافع کا لکھا ہوا حامل صداعتبار ہے۔

مجھ سے اہم ادبی شخصیتوں نے اکثردوران گفتگوکہا کہ بحیثیت ایک مبصر شافع ہمیشہ اسی تخلیق یا تالیف پر قلم اٹھاتے ہیں جس کی ادبی حیثیت مسلم الثبوت ہوتی ہے اور جس کی طرف راغب ہوکر ادبی شعور اور ذوق رکھنے والے کو کچھ حاصل ہوگا یہ تو ہر لکھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا لکھا منظرعام پر آئے لیکن منظر عام پر وہی آنا چاہئے جس سے نیک نامی حاصل ہو، یانیک نامی توسیع ہو ،اپنے فائدے کی یہ بات کم لوگ سمجھتے ہیں ۔دنیا میں سب سے مشکل کام اپنا ناقد ہونا ہے اور وہی لوگ کچھ قابل ذکر کرپاتے ہیں جن میں یہ شعور ہوتا ہے۔شافع کی تحریریں ان کے اسی شعور کی آئینہ دار ہیں جن کا ہرپہلو اس لئے مضبوط ہوتا ہے کہ وہ بات قلم وقرطاس تک جانے سے پہلے اپنے اس ذہن کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں جو صحیح نتیجہ اخذ کرکے ہی ان کو لفظوں کو رخصت روانی دیتا ہے، اسی لئے اب تک کی ان کی تحریریں مستند ناقدین ادب کی پہلی پسند ہیں۔چاہے اردو ہو یا انگریزی ،یکساں طور پر زبان پر ان کی قدرت اورسلجھی ہوئی فکر کے باعث ادب کے فروغ کی راہ میں ان کی مددگار ہے۔بعض ایسے موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے کہ جن پر مختلف زاویوں سے بہت کچھ کہا جاچکا تھا،اور فضائے ادب کو نئے رنگوں کی تلاش تھی،شافع وہ رنگ ڈھونڈ لائے جس کی مثال ان کی مشہور ِزمانہ کتاب ’سوانح سرسید‘ ہے۔اپنے بیش بہا کارناموں کے باعث سرسید نقد ونظر کی آنکھوں اور دلوں میں بسے تھے، جس نے اُن پر لکھاجذبے سے لکھا، لیکن شافع نے نہ صرف الگ زاوئیے سے سرسید کو دیکھا بلکہ سرسید شناسی کیلئے نئے امکانات کے در بھی کھول دئیے۔ یہ ہوتا ہے اخلاص سے قلم کو بروئے کار لانے کا ہنر۔قلم چلانے میں ایسی احتیاط جیسی ان میں ہے ،مشکل سے دیکھنے میںا ٓتی ہے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ بات خود انہوں بتائی، اور جو حقیقت ہے کہ ان کی بنیادی تعلیم ہندی میڈیم اسکولوں میں ہوئی، مجھ میں اوران میں یہ قدر مشترک ہیں اور ہم دونوں انگریزی میں لکھتے ہیں،وہ بہت اچھی انگریزی لکھتے ہیں اور میں بہت معمولی۔ان کے تبصرے انگریزی کے سب سے اہم اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ہوتے ہیں،جو اپنی جگہ خود سند ہے۔بس انگریزی میں میں نے جو لکھا ہے اس پرابھی میں نہ تو کوئی حتمی فیصلہ کر پاتا ہوں نہ مجھے کوئی گمان ہے، لیکن میری انگریزی نظموں کی کتاب پر شافع تبصرہ کرچکے ہیں اور اس کو اچھا بتا چکے ہیں،یہ بات میری اپنے متعلق تشکیک کی دھند کو کسی حد تک صاف کرتی ہے۔میں اپنی بات چھوڑ کر آگے بڑھ گیا جو شافع نے خود بتائی کہ ان کی اہلیہ محترمہ اوّل تا آخر انگریزی میڈیم کی پڑھی ہیں اور شافع انگریزی میں قواعد کی جواحتیاط کرتے ہیں اس پر وہ ازراہ مزاح کہتی ہیں کہ یہ آپ کا ہندی میڈیم میں پڑھنے کا کامپلیکس ہے کیونکہ براہ راست زبان آنا فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔سیکھ کر اس کا استعمال یقین کا خاموش حریف ہے،لیکن میں اس احتیاط کا پیرو کار ہوں کیونکہ ترسیل ہمیشہ بے عیب ہونا چاہئے،وہ بھی جب وہ شائع ہوکر محفوظ ہورہی ہے،آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔

میں نے تو نہیں دیکھا لیکن مجھ سے راجیو پرکاش ساحر نے اس وقت بتایا جب وہ کسی اپنے عزیزکے یہاں تقریب میں علی گڑھ گئے اور بحیثیت صدر شعبہ شافع کا حسن انتظام اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی خوشبو کومحسوس کیا جو شافع کے وجود سے وہاں بسی ہے،ان کی علمیت کے اثر سے سارا ماحول لفظ و معانی کا ایک جہاں آباد کئے ہے۔بظاہر کچھ لاپرواہ دکھائی دینے والے شافع ہرحال میں بہت فعاک اور متحرک ہیں۔

ظاہر ہے کہ شافع نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ لکھنؤ میں گذارا،اور بیتے دنوں کی لکھنؤ کی بہاروں کی یادیں ہم دونوں کے دلوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔اور منظر نامہ یکسر بدل جانہ ہمارے کرب کا باعث ہے۔ نہ تو ادارۂ فروغِ اردو ہے نہ والی آسی مرحوم کامکتبۂ دین وادب۔صورتیں خاک میں پیوست ہوکر لالہ ٔ وگل کی صورت میں یقینا نمایاں ہوچکی ہیں وہ الگ بات ہے کہ ہمارا ادراک محدودہے، اس لئے ہم ان کو یاد کرکے ہراساں ضرور ہیں۔شافع کو اس دور کی بہت سی باتیں خوب یاد ہیں اور ہم دونوں ان باتوں کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔موجودہ نسل تو تصور ہی نہیں کرسکتی کہ وہ لکھنؤ اور لکھنؤ والے اوصاف کی کن بلندیوں پر تھے۔دراصل ویسے ہی لوگوں سے لکھنؤ کے اس تہذیب وتمدن کی تشکیل ہوتی تھی،جس سے یہ شہر عالم میں انتخاب تھا۔

ان کی کتاب’’ سرسید اے لائف ان ریزن‘‘آکسفورڈ یونیورسٹی پریس شائع کررہاہے ۔طباعت کی منزلوں میں انگریز پبلشر کس قدر جزئیات پر نظر رکھتا ہے،یہ اکثر شافع مجھے بتاتے رہتے ہیں کہ ایک غیر ضروری کامہ پر بھی ان کا انداز ناقدانہ نہ ہوکر استفہامیہ ہو جاتا ہے۔یہ بات خود بہت اہم ہے کہ کتاب یقینا ادب میںایک اضافہ ہوگی،کیونکہ ترقی یافتہ قومیں جبھی کسی چیز کو لائق اعتنا سمجھتی ہیں جب اس میں لافانیت کی بشارت ہوتی ہے۔میں نے خود اپنی انگریزی نظموں کی کتاب اسی وقت شائع کرائی جب انٹر نیٹ پر انگریزوں نے مثبت رائے دے دی، جو میں نے کتاب میں شائع بھی کردی اور جناب یہ شافع سے نہیں اپنے پڑھنے والوں سے ساجھا کررہاہوں کہ جب میں شافع کی انگریزی تحریریں پڑھتا ہوں تو پاسبان عقل کے طور پر ڈکشنری پاس رکھتا ہوں، معمولی ڈکشنری تو اپنی کم مائیگی پر جھینپ جاتی ہے لیکن ان کے استعمال کئے ہوئے لفظوں کے معانی مستند ڈکشنریوں میں وہاں ملتے ہیں جہاں وہ معانی لکھ کر خود ترتیب دینے والے بھی بھول چکے ہوتے ہیں۔جب ان الفاظ کے معانی کا عرفان ہوتا ہے تو مزہ دوبالا ہوجا تا ہے۔اس وقت میں زیادہ خوش ہوجاتا ہوں جب مقابلتاً کچھ آسان لکھ دیتے ہیں یہ ان کی علمیت اور میری کم علمی کے بیچ ایک خاموش تنازعہ ہے کاش ایسا نہ ہو،
وہ اپنی خوں نہ چھوڑیں گے ،ہم وضع کیوں بدلیں ؎

رفتہ رفتہ ہم اپنی وضع بدل رہے ہیں۔شافع اپنی خوں نہ چھوڑیں ،ان کی انگریزی تحریر ہی سحر انگیزی سے راجیو پر کاش اس قدرجکڑ گئے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے انگریزی میں تخاطب کررہے ہیں جو دائمی شرم میں مبتلا ہیں کہ وہ کہہ بھی سکے کہ ان کو انگریزی نہیںآتی۔

الغرض شافع کے فن کا ارتقاء ہم سب شائقین ادب کے لئے مسرت کا باعث ہے اور اس مسرت سے ہمارے دل سرشار ہیں،گرانقدرعلامہ اقبال سمان مدھیہ پردیس اردو اکیڈمی سے ان کو ملا ہے اور علی گڑھ کی درسگاہ کہ وہ چوتھی شخصیت ہیں جس کو یہ اعزاز ملا ہے جس کے حصول میں اولیت آل احمدسرورکو حاصل ہوئی تھی۔