برلن میں رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کی یاد میں شاندار مشاعرہ

رپورٹ: عارف نقوی

برلن: اتوار یکم جولائی کوجرمنی کی راجدھانی برلن میں ممتاز ترقی پسند ادیبہ رضیہ سجاد ظہیر کے سو سالہ یومِ پیدائش اور احمد ندیم قاسمی کے ۱۰۲ سالہ یوم پیدائش کے حوالے سے اردو انجمن برلن نے جشن مناتے ہوئے ان کی خدمات کو یاد کیا گیا ۔ اس موقع پرسب سے پہلے معروف طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کے بارے میں اردو انجمن کے نائب صدرانور ظہیر رہبر نے سلائیڈس کی مدد سے تیار کردہ ایک مختصردستاویزی فلم دکھائی گئی۔

نظامت کے فرائض جرمن زبان میں مایا ظہیر نے اوراردو میںانور ظہیر نے ادا کرتے ہوئے میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری ، رضیہ سجاد ظہیر کی دختر ڈاکٹرنور ظہیر اور اردو انجمن کے صدر عارف نقوی کو ڈائس پر بیٹھنے کی دعوت دی ۔

عارف نقوی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انجمن کی سرگرمیوں اور تقریب کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں اور ناولوں میں بھی انسانیت، امن اوردوستی کے لئے اور استحصال کے خلاف جذبات پنہاں ہیں۔ رضیہ سجاد ظہیر جنہوں نے جرمن ادیب برونو آپِتز کے ناول Nacked among the wolves کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ۱۹۶۵ء میں ملک راج آنند، سجاد ظہیر، امرت رائے اور عارف نقوی کے ساتھ جرمن شہر وائمر میں ادیبوں کی عالمی کانفرنس میںشرکت کی تھی اور بوخنوالڈ کے نازی کنسنٹریشن کیمپ کو دیکھنے گئی تھیں۔

رضیہ سجاد ظہیر کی دختر نور ظہیر نے اپنی والدہ کی زندگی اور تخلیقات پر روشنی ڈالی۔ نور ظہیر کی تقریر کا جرمن زبان میں ترجمہ انجمن کی رکن نرگس یونیتسا نے سنایا۔
میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے احمد ندیم قاسمی اور رضیہ سجاد ظہیر کی زندگی اور تخلیقات نیز قربانیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کی تقریر کا جرمن زبان میں ترجمہ اردو انجمن کے سکریٹری اُووے فائلباخ نے پیش کیا۔

جلسے میں اسلم جمشید پوری کی کتاب ’عید گاہ سے واپسی‘ کے تیسرے ایڈیشن، عارف نقوی کی کتاب ’طائر آوارہ‘ ،عشرت معین سیما کی کتاب ’جرمنی میں اردو‘ کا اجراء کیا گیا۔ فرانکفورٹ سے آئی ہوئی مہمان ادیبہ ہما فلک نے کہا کہ وہ اپنے افسانوی مجموعے کی رسمِ اجراء اردو انجمن کے جلسے میں چاہتی تھیں،لیکن وہ نہیں پہنچ سکی ہے۔

اردو انجمن برلن کی طرف سے پروفیسر اسلم جمشید پوری کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’اردو کا ستارہ‘‘ ایوارڈ پیش کیا گیا اور ڈاکٹر نور ظہیر کو اعزازِ اردو انجمن کے میمنٹو اور بزم ادب کے صدر علی حیدر وفا ،ٹی ایس فوڈ کے خالد محمود اورسہیل انورخان نیزڈاکٹر عاصم قادری اور عمر ملک کو اعزاز اردو انجمن کی سندوںسے نوازا گیا۔

چائے کے وقفے کے بعد ایک دلچسپ محفل مشاعرہ پروفیسر اسلم جمشید پوری کی صدارت میں منعقد کی گئی، جس میں اردوشعراء کے ساتھ ہندی، پنجابی، انگریزی وغیرہ زبانوںکے نئے اور پرانے شعراء نے بھی اپنے کلام پیش کئے۔مشاعرے کینظامت عشرت معین اردو انجمن کی سرگرم رکن عشرت معین سیما نے خوبصورتی سے کی۔

مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوئے عشرت معین سیما نے اپنی ایک نظم پڑھی اور ایک غزل کے اشعار سنائے۔ مثلاً :

سر کو بچاتے یا درودیوار بیچتے

سر کی حفاظتوں میں کیا دستار بیچتے

شہرت کے مول خوب لگے شہر میں مگر

ہم محترم کہاں تھے جو کردار بیچتے

مایا حیدر نے کہا:

اتنی دلچسپ لگی ہم کو کہانی اس کی

تمام رات رہے سنتے زبانی اس کی

گن ہی ایسے تھے اس میںعشق ضروری ٹھہرا

دل نشینی پہ طرّہ اردو بیانی اس کی

اور ارشاد خاں نے نصیحت کی:

جب ہر کام پہ مٹّی ڈالو گے

یہ مٹّی کہاں سے لائو گے

شیخ ریاض انس نے عالمی حالت کا شکوہ ان الفاظ میں کیا:

سکون فراموش کردیں اسلحہ کی بھر مار ہے

کہاں مفاہمت کی بات ہر سو مار دھاڑ ہے

عامر عزیزنے فرمایا:

جہاں میسر نہیں انسان کو کچّا سائبان بھی

وہاں تم ستاروں سیاروں کی بات کرتے ہو

انور ظہیر رہبر نے اپنی نظم میں کہا:

اک شمع کے گرد ہیں پروانے بے شمار

کیوں روشنی کے ہیں یہ دیوانے بے شمار

مجرم امیرہو تو پائے سزا غریب

انصاف کے ہیں دنیا میں پیمانے بے شمار

سوشیلا شرما حق نے ہندی کویتا پڑھتے ہوئے کہا:

مندر میں کروں پوجا

مسجد میں سر جھکائوں

گُردوارے میں ٹیکوں ماتھا

یا پھر چرچ میں دیا جلائوں

عبادت ہو یا ہو پوجا

بلیہاری اس کی ہی جائوں

فرانکفورٹ سے آئی ہوئی شاعرہ ہما فلک نے کہا:

میں اک معمہ میں اک پہیلی

نہ پاسکوگے سراغ میرا

اسے نہ مہتاب تم سمجھنا

فلک پہ روشن چراغ میرا

اور حیدر وفا اپنے غم کا اظہار ان الفاظ میں کر رہے تھے:

میرے غم کے غم میں تو غمگیں نہ ہو اے غمگسار

میں بنا ہوں غم کی خاطر غم بنا میرے لئے

مشاعرہ کو لوٹنے والوں میں ایک نئے شاعراترن گپتا کی خوبصورت انگریزی نظم اور پنجای شاعرہ پرمنجیت کور کی نظم بھی تھی جو اتنے خوبصورت ترنم سے پیش کی گئی کہ زبان نہ سمجھنے والے بہت سے لوگ بھی جھوم رہے تھے۔ جبکہ سنیتا شرما کے اشعار پر بھی کافی داد دی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ جب شاعر کی شامت آتی ہے تو وہ آخر میں اپنا کلام پیش کرتا ہے۔چنانچہ جب یہ اعلان کیا گیا کہ عارفؔ نقوی پڑھیں گے، تو میری نظر سب سے پہلے ہال کی ذمے دار ایک صاحبہ پر پڑی جن کی گھبرائی ہوئی نظریں کہہ رہی تھیںکہ اب تو وقت ختم ہو گیا ہے مجھے ہال بند کرنا ہے۔پھر میں نے نظامت کرنے والی محترمہ اور صدرِ مشاعرہ کی طرف دیکھا جو شائد سوچ رہے ہوں گے کہ میں کہیں ان کا بھی وقت نہ لے لوں۔ لوگوں نے اپنے کلام تو انہیں سنادئے لیکن ان کے لئے وقت نہیں چھوڑا۔ چنانچہ میں نے جلدی سے چند اشعار ہی پیش کئے۔ مثلاً:

ایسی ہوا چلی ہے کہ گلشن میں ہر طرف

جس پھول کو بھی دیکھتا ہو ں داغدار ہے

اتنا بہا ہے خون میرا اس دیار میں

گزرا ہوں میں جدھر سے ادھر لالہ زار ہے

شعری دور کا اختتام صدرِ مشاعرہ پروفیسر اسلم جمشید پوری کی غزل سے ہوا۔ انہوں نے کہا:

دل کسی کا کبھی ہم دکھاتے نہیں

تم کو نفرت ہے کیوں کچھ بتاتے نہیں

جو ہنر جانتے ہیں برسنے کا وہ

یوں گرج کر کسی کو ڈراتے نہیں

ایک دوسری غزل میں اسلم جمشید پوری نے کہا:

اندھیرا گھنا ہو گیا نفرتوں کا

چراغِ محبت جلائیں کہاں تک

دوسرے دن ۲؍ جولائی کو اردو انجمن برلن کی طرف سے پاکبان انٹرنیشنل کے تعاون سے ایک شبِ افسانہ کا پروگرام کیا گیا اور ۳؍ جولائی کو ہمبولٹ یونیورسٹی کے ایشیا افریقہ سیکشن میں پروفیسر اسلم جمشید پوری اور عارف نقوی کو مدعو کیا گیا