سہ لسانی فارمولے کے تحت بچوں کو اردو پڑھانے کے لئے زور دیا جانا چاہئے:اکٹر مسیح الدین خان

اردو کی موجودہ صورت حال پر غور و فکر کے لئے میٹنگ کا انعقاد

لکھنؤ، : اردو کی موجودہ صورت حال اور اس کی ترویج ، ترقی و اشاعت کی سمت و رفتار پر غور و فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر کئی اہم تجاویز پیش کرنے کے لئے محبان اردو کی جانب سے کے. سی. اسنیکس پوائنٹ ، حضرت گنج میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت سدرت اللہ انصاری نے کی ۔

سدرت اللہ انصاری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ سرکاری کاغذات میں اور زبانی طور پر اردو کی ترقی اور اشاعت کی تمام باتیں کی گئی ہیںلیکن عملی طور پر یہ ساری باتیں ندارد ہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں اردو اساتذہ کی خالی پڑی آسامیوں کو پُر نہیں کیا جارہا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں شامل اردو کورس کی کتابیں اب شائع ہونا شروع ہوجانی چاہئیں۔اس پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر مسیح الدین خان ’مسیح‘نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی فلاح و بقا کے ارادے سے اردو کو ہر گھرمیں پہچانے کے لئے جس طرح سے تمام ادارے اور تنظیمیں سرگرم ہیں وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے، لیکن اس سمت میںزمینی اور ذاتی طور پر بہت سے اقدام اٹھائے جانے چاہئے۔تعلیمی اداروں ، کانونٹ اسکولوں میں سہ لسانی فارمولے کے تحت بچوں کو اردو پڑھانے کے لئے وہاں کے انتظامیہ پرزور دینا جانا چاہئے۔

شعبۂ اردو،لکھنؤ یونیورسٹی کے اجے کمار سنگھ نے یہ تجویزپیش کی کہ مختلف کانونٹ اسکولوں میں اردو پڑھانے والے اساتذہ اوروہاں کے بچوں کا سروے کر کے ان کی تعداداور تعلیم کے معیار میںسدھار لانے کے لئے مجموعی طور پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان اساتذہ اور بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تمام اکادمیوں اور تنظیموں سے وظیفے اور معقول انعامات کے بندوبست کا مطالبہ کیا جانا چاہئے۔شعبۂ اردو،لکھنؤ یونیورسٹی کے ہی یاسر انصاری نے کہا کہ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی سے اردو کو قریب تر کرنے لئے حقیقی طور پر ٹھوس نتیجہ خیز اقدام اٹھانے ہوں گے۔ مختلف تعلیمی اداروں سے لے کراشتہار و تشہیر میں اردو کا باقاعدہ استعمال اس زبان کی ترقی اور ترویج میں بے حد معاون ہو سکتا ہے جس کے لئے عملی سرگرمی کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ جمیل احمد نے اس میٹنگ میںبڑا ہی اہم مدعا پیش کیا کہ سرکاری عمارتوں ،پارکوں اور سڑکوں کے نام زیادہ تر اردو زبان میں ہے ہی نہیں اور اگر ہیں تو اس کے لئے محض رسمی انداز میں خراب املے اور کتابت کا سہارا لیا گیا ہے۔ اردو والوں کے لئے یہ بے حد شرمندگی کی بات ہے۔ ہمیں جلد از جلد ان اغلاط کی تصحیح کے لئے اس طرف تمام متعلقہ ذمہ دار محکموں کی توجہ طلب کرنی چا ہئے۔

سینئر صحافی ڈاکٹرحمید اللہ صدیقی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ اردو کو روزگار سے مزید کس طرح جوڑا جا سکتا ہے۔ ریاست اتر پردیش میں گذشتہ کئی بار اردو ٹرانسلیٹر اور ریویو آفیسر کی آسامیوں کے لئے اشتہار نکالا گیا لیکن ان میں سے ذیادہ تر کے امتحانات اور ان کے نتائج کا کو ئی پتا نہیں ہے۔ انڈین انسٹیی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رفیع احمد نے اردو معلم اساتذہ کی باقی آسامیوں کے متعلق ابھی تک کسی بھی طرح کی کاروائی پر عمل ردآمد نہیں ہو نے پر تشویش کا اظہار کیا۔اس بابت انہوں نے متعلقہ محکمے سے اطلاعات فراہم کیے جانے کے مطالبے کی تجویز پیش کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر ذوالقرنین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس میٹنگ میں شہر کے تمام محبان اردو موجود رہے۔ ڈاکٹر مسیح الدین خان کے اظہار تشکر کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔