ارم ایجو کیشنل سوسائیٹی کے تعزیتی جلسہ میں مرحوم انور جلالپوری کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا

لکھنئو: ابھی ہم ملک زادہ منظور احمد کو بھلا بھی نا پائے تھے کہ ایک اور ناظم مشاعرہ ہمارا بھائی انور جلالپوری دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ ہماری جب نشستوں میں آتے تھے تو چار چاند لگ جاتے تھے ابھی گذشتہ مہینے ایک عالمی مشاعرہ کالج میں کیا تھا جس میں انہیں مشاعرے کی صدارت کرنا تھی۔ چونکہ وہ اپنی بیٹی کی موت کے صدمہ میں تھے اس لئے نہیںآسکے۔ نہیں معلوم تھا کہ اب ان سے ملاقات نہ ہو سکے گی۔
ان خیالات کا اظہار ارم ایجو کیشنل سوسائیٹی کے منیجرڈاکٹر سید محمد یونس نے مرحوم انور جلالپوری کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسہ میں کیا۔

ڈاکٹر خواجہ یونس نے کہا کہ ہمارے ان سے پرانے مراثم تھے۔ ان کے انتقال سے اردو دنیا نے ایک محب اردو بہترین مصنف اور مشہور ناظم مشاعرہ کھو دیا ۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پرُ ہونا مشکل ہے۔

تعزیتی جلسہ سے خطاب میں سینئر صحافی ڈاکٹر طارق حسین نے کہا کہ پروفیسر انور جلالپوری کے انتقال سے نظامت کی دنیا کے ایک اور دورکا خاتمہ ہو گیا۔ وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی شہرت یافتہ ناظم بھی تھے مصنف بھی تھے اور فلمی دنیا کے نغمہ نگار بھی تھے ۔ انہوں نے سب سے مشہور اور معروف کارنامہ تیسویں پارے کا منظوم ترجمہ اور بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ ہے۔ مرحوم انور صاحب سے ہم نے پہلی ملاقات سب سے پہلے اپنے طالب علمی کے دور لکھنئو یونیورسٹی میں کی تھی اور ان سے شعبہ میں آدھے گھنٹہ کی بات چیت ہوئی اس میں ہمارے جونیئر اور سینئر ساتھی بھی تھے۔ اس وقت مرحوم ملک زادہ صاحب اور انور جلالپوری کسی مشاعرے سے واپس آئے تھے اور شعبہ کے سربراہ مرحوم شبیہ الحسن نونہروی سے ملاقت کے لئے حاضر ہوئے تھے اس میں ملک زادہ صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کو بلا لو انور صاحب سے جو کچھ سننا ہو سن لو ۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

محمد عارف نگرامی نے کہا کہ انور بھائی سے میرے ذاتی مراثم تھے اکثر ان سے گھر پراور فون پر بات ہو جایا کرتی تھی۔ ارم کالج میں ان کی شعری نششتوں میں آمد کا میابی کا ضامن بنتی تھی۔ ہم نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے ابھی عالمی مشاعرے میں دعوت دی تھی چو نکہ وہ بیٹی کے صدمے میں تھے اس لئے نہیں آسکے تھے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے