لکھنو: علامہ اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ مشرقی اقوام اور بالخصوص ملت اسلامیہ کے نہایت دوررس اور دور بیںمفکر تھے۔ انہوں نے آج سے تقریباََ سو سال قبل ہندوستان پر مغربی تسلط اور حکمرانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کساد بازاری، بینک کاری،نئے قسم کی سرمایہ داری کے فروغ پر بارہاا پنے اندیشوں کا اظہار کیا تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اپنے ہم عصر شعرا میں اقبال کی رسمی تعلیم سب سے زیادہ تھی۔ـ

ان خیالات کا اظہار علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے معروف نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے اپنے بصیرت افروز توسیعی خطبے میں کیا ۔شعبہ ٔ اردولکھنو ٔیونیورسٹی کے مسعود حسن رضوی ادیب سیمینار ہال میں ’علامہ اقبال کی عصری معنویت‘ کے عنوان سے منعقد اس توسیعی خطبے میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے فلسفے پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کے بنیادی فلسفے اور ان کی شاعری میں مرد کامل کا تصور ،عشق ، حرکت و عمل اور جلال و جمال کے تصورسے متعلق ان کی فکر کو سمجھے بغیر علامہ اقبال کی عصری معنویت کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ اس توسیعی خطبے کے آغازسے قبل عرفان احمد علیگ نے اقبال کی نظم ــــ ’جبرئیل و ابلیس‘ او ر اس کا انگریزی ترجمہ بے حد خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔اپنے صدارتی خطبے میںڈاکٹر عمار رضوی نے کہا کہ پروفیسر ابولاکلام قاسمی نے اپنے عالمانہ انداز میں اقبال کی شاعری اور نثری افکار پر جس طرح گفتگو کی اس کا احاطہ کرنے کے لئے عصر حاضر کو سمجھنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اقبال سے بھی پوری واقفیت لازمی ہے۔ اور اپنے زمانے کی صورت حال کے ادراک و شعور پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے۔پروفیسر قاسمی نے اپنے اس گراںقدر خطبے میں ان تمام گوشوں کو نہ صرف سمجھنے کا ثبوت دیا بلکہ اپنے انداز کلام اور افہام و تفہیم سے اس موضوع کو پوری دسترس کے ساتھ ایک توسیعی خطبے میں ڈھال دیا ۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے حوالے سے کہا کہ علامہ اقبال کی شاعری رسم نہیں رزم ہے۔خطبے کے اختتام پر طلبہ اور دیگر حاضرین نے سوالات قائم کیے جس کا پروفیسر ابولکلام قاسمی نے تسلی بخش جواب دیا۔اس تقریب میں پروفیسر عارف ایوبی، ڈاکٹر احمد عباس ردولوی ،ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر طارق قمر ، ڈاکٹر ہارون رشید،ڈاکٹر سلمان رضوی ڈاکٹر منتظر مہدی، یاسر انصاری، کرار حسین، اختر سعید، اجے سنگھ، محمد عباس،کاشف رضا عرشی، محمد رہبر، جمیل احمد، علی ظفر،شاہد رضا محمد حسن، حمیرا عالیہ سمیت شعبۂ اردو کے تمام ریسرچ اسکالر، طلبہ و طالبات اور شہر کی معزز شخصیات اور محبان اردو کثیر تعداد میں موجود رہے۔ اس تقریب کا اختتام وقار رضوی کے کلماتِ تشکر کے ساتھ ہوا۔