مولانا سید احمد ومیض ندوی

مرکز کی مودی سرکار اپنی میعاد کا ایک بڑا حصہ مکمل کرنے جارہی ہے۔ اس عرصہ میں کامیابیاں اور حصولیابیاں تو صفر کے درجہ میں رہیں،، البتہ اقلیت دشمنی اور بالخصوص مسلم دشمنی کے حوالہ سے اس نے بہت کچھ پیش رفت دکھائی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ وزیراعظم کا سارا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ منموہن سنگھ کو سونیا گاندھی کے کٹھ پتلی وزیراعظم کہتے نہ تھکنے والے مودی آر ایس ایس کے ہاتھ کا کھلونا بن چکے ہیں۔ جیسے جیسے میعاد آگے بڑھ رہی ہے ،مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات میں تیزی لائی جارہی ہے۔ طلاق ثلاثہ کی منسوخی کامعاملہ ہویا روہنگیا پناہ گزینوں کی برقراری کا، گاؤ رکھشکوں کو کھلی چھوٹ ہو یا موب لنچنگ کے ذریعہ بے قصور مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کئے جانے کی بات‘ مرکزی حکومت کا ہر اقدام اس کی مسلم دشمنی کامظہر نظر آتا ہے۔

مودی سرکار کی تازہ نظر عنایت اب حج پر ہورہی ہے۔ حج جیسی خالص عبادت بھی اس کی نظروں میں کھٹکنے لگی ہے ۔ گزشتہ دنوں اقلیتی امور کے مرکزی وزیر نے نئی حج پالیسی سے متعلق حکومت کو پیش کی جانے والی سفارشات کا اعلان کیا۔ اگرچہ ان میں بعض سفارشات ایسی ہیں جن پر ایمانداری سے عمل ہو تو حج کے پاکیزہ عمل میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے ،لیکن بعض دیگر سفارشات ایسی ہیں جن سے جہاں ایک طرف شریعت میں مداخلت ہوتی ہے، وہیں حجاج کے لئے دشواریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ بحری جہاز سے سفر حج کے تعلق سے پیش قیاسیوں کا سلسلہ کافی عرصہ سے چل رہا تھا، مگر نئی حج پالیسی اس تعلق سے خاموش ہے۔ اسی طرح حج کمیٹی آف انڈیا کو آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کی بھی تجویز بھی حکومت سے کی گئی سفارشات میں شامل ہے ۔ بظاہر یہ تجویز معقول نظر آتی ہے کہ اس سے حج کمیٹی آزاد قانونی اور خود مختار ادارہ بن جائے گی اور اس کے اقدامات صرف مشورہ تک محدود نہ رہیں گے ، لیکن سابق میں حج کمیٹی پر لگے سنگین الزامات اور رہائشی عمارتوں کے حوالہ سے ہوئی بدعنوانیوں کو مد نظر رکھیں تو حج کمیٹی کا حکومت کے تابع رہ کر کام کرنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے ۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ عازمین سے اعلیٰ رہائشی عمارتوں میں قیام کی رقم لی گئی اور انہیں دوسری جگہوں پر ٹھہرایا گیا ۔اسی طرح امسال یہ شکایت بھی بہت سننے میں آئی کہ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ لوگ رکھے گئے ، پھر اس پر طرہ یہ کہ محرم اور غیر محرم کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ جہاں تک پرواز کے لئے گلوبل ٹینڈر کی بات ہے تو یہ ایک بہتر تجویز ہے، ایر انڈیا کی اجارہ داری نے حج کی ٹکٹوں کو آسمان پر پہنچادیا ہے۔ جو ٹکٹ عام دنوں میں کم خرچ پر دستیاب رہتی ہے ، اسے حج کے ایام میں اچانک دوگنا کردیاجاتا ہے، جس کا خمیازہ حاجیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

نئی حج پالیسی کے تحت آنے والے پانچ برسوں تک حج کمیٹی آف انڈیا کا کوٹہ 70 فیصد اور پرائیویٹ آپریٹرز کے لئے 30 فیصد اضافہ کی سفارش کی گئی ہے۔ سیٹوں کو مختص کرنے کے متعلق حج کمیٹی آف انڈیا کو اختیار دینے کی سفارش کی گئی ہے کہ وہ اس کے لئے مختص کی گئی سیٹوں میں خادم الحجا ج(625) اور سرکاری کوٹہ 500 سیٹوں میں تخفیف کرے گی، بقیہ سیٹوں کو مسلم آبادی کے تناسب سے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر نگرانی علاقوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ سب سے پہلے اضافی سیٹیں جن کی تعداد 500 ہو محرموں کو فراہم ہوں گی ، اگر سیٹیں باقی رہ جائیں تو خصوصی نظم کے تحت 2000 سیٹوں تک جموں و کشمیر کے لئے مختص ہوں گی۔ مکہ معظمہ میں قیام کے سلسلہ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا ایک ہی کیٹگری کے قیام پر غور کرے اورایسے علاقے کے لئے کوشش کرے جہاں سلسلہ وار عمارتیں مل سکتی ہوں۔ ایجنٹوں کے توسط سے کام کرنے کے روایتی نظام کو مکمل طورپر ختم کیاجائے۔ ہندوستانی عازمین کے لئے مکہ معظمہ میں ایسی آفس کے لئے حکومت کوشش کرے جو پورے سال مصروف کار رہے۔ بلڈنگوں میں قیام کرنے والے عازمین کی تعداد مکمل ہونے پر حج کمیٹی آف انڈیا کے تحت بقیہ رقم واپس کی جانی چاہئے۔ نئی حج پالیسی کے یہ چند مثبت پہلو ہیں، جہاں تک اس کے منفی پہلوؤں کا تعلق ہے تو ان میں سے ایک حج سبسیڈی کا خاتمہ ہے۔ یہ اقدام اگرچہ بی جے پی کی اقلیت دشمنی کے تناظر میں کیاگیا ہے ، لیکن اس کا ختم کیاجانا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ حج سبسیڈی محض دھوکہ ہے۔ یہ سبسیڈی حجاج کرام کے لئے کم اور ایر انڈیا کے لئے زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ ممکن ہے ابتداء میں اس کا آغاز خلوص نیت سے کیاگیا ہو لیکن حالیہ عرصہ میں یہ سبسیڈی سنگھ پریوار کے لئے مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کا سامان بن گئی ہے۔ حیرت ہے کہ ملک میں دیگر مذہبی زائرین کو کمبھ میلہ سے لے کر امرناتھ تک سبسیڈی دی جاتی ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی واویلا نہیں کرتا۔ مگر زعفرانی جماعتیں حج سبسیڈی ہی کو نشانہ بناتی ہیں۔سبسیڈی کے حوالہ سے درجِ ذیل رپورٹ کی جانکاری چشم کشا ثابت ہوگی۔سال 2015ء کے حج کے موقع پر مرکزی حکومت نے حج سبسیڈی کے لئے 691 کروڑ روپئے منظور کئے۔ ایک لاکھ چھتیس ہزار (136000) حجاج کے لئے یعنی ہر حاجی کے لئے قریب پچاس ہزار روپئے (50,000)۔ قرعہ میں منتخب ہونے کے بعد ہر حاجی کو عزیزیہ زمرہ کے لئے کم از کم ایک لاکھ اسّی ہزار روپئے (180000) ادا کرنے پڑے۔ جس میں سے مکہ و مدینہ میں اخراجات و قربانی کے لئے ہر حاجی کو2100 ریال یعنی 34000 روپئے واپس کئے گئے۔ بقیہ رقم 146000 روپئے میں ہوائی جہاز کا کرایہ ، جدہ واپسی کے لئے 25,000 روپئے (کیوں کہ دو ماہ اڈوانس بکنگ پر اتنا ہی خرچ آتا ہے۔ مکہ و مدینہ میں قیام کے اخراجات قریب 70000 روپئے معلم کی فیس وغیرہ کے لئے 25000 اس طرح 1,46,000 روپئے میں سے 26,000 روپئے حج کمیٹی آف انڈیا کے پاس سلک رہ جاتے ہیں۔ اس میں حج سبسیڈی کی رقم 50,000 روپئیے جمع کی جائے تو ہر حاجی کے لئے 76,000 روپئے رقم جمع رہتی ہے۔ اس کو 136000 حجاج کے لئے حساب لگایا جائے تو حیرت انگیز رقم ایک ہزار چونتیس کروڑ روپئے بنتی ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ یہ رقم ایر انڈیا کی
بقاء کے لئے استعمال ہوتی ہے یا حجاج کو راحت پہنچانے کے لئے۔

نئی حج پالیسی کا ایک منفی پہلو 70 سال کے عازمین کے لئے بلا قرعہ اندازی منتخب ہونے کی سہولت کا خاتمہ ہے۔ اس سے ساری عمر حج کی خواہش میں پیٹ کاٹ کر روپیہ جمع کرنے والا طبقہ سستے حج سے محروم ہوجاتا ہے۔ بعض معاشی لحاظ سے کمزور مسلمان عمر بھر بچت کرکے رقم پس انداز کرتے ہیں ، تاکہ عمر کے آخری مرحلہ میں حج کی سعادت حاصل ہوسکے۔ اس پالیسی سے ایسے مسلمانوں کو مایوسی ہوگی۔ اس کے علاوہ خادم الحجاج جو عازمین کی مدد کے لئے بھیجے جاتے ہیں،ان کا 50 فیصدخرچ مرکزی حج کمیٹی اور 50 فیصد ریاستی حج کمیٹی برداشت کرتی ہے، نئی حجپالیسی میں اسے بھی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جو کہ مناسب نہیں ہے۔ نئی حج پالیسی کی ایک اور قابل اعتراض سفارش وہ ہے ، حاجیوں سے انڈیا ہی میں قربانی کی رقم وصول کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ حجاج سے انڈیا ہی میں قربانی کی رقم وصول کرنا غیر قانونی ہونے کے ساتھ غیرشرعی بھی ہے، اس لئے کہ حج کی تمام اقسام میں قربانی واجب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قربانی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے کچھ سہولیات بھی دی ہیں جن کا ذکر قآن میں موجود ہے۔ حج کرنے والا غریب ہوتو اسے قربانی کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مکہ میں تین روزے رکھے اور اپنے ملک پہنچ کر سات روزے رکھے۔ ایسے میں قربانی کے نام پر سبھی حجاج سے پیسے وصول کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ سعودی عرب میں قربانی کے لئے 400 ریال لئے جاتے ہیں، جبکہ نئی حج پالیسی میں 800 ریال وصول کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ نئی حج پالیسی کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں روانگی مراکز 21 سے گھٹاکر 9 کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سے بھی حجاج کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ سفر کی صعوبتوں کے علاوہ مالی اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا۔ نئی حج پالیسی کی سب سے خطرناک سفارش وہ ہے جو 45 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لئے بغیر محرم کے سفر حج کی اجازت سے تعلق رکھتی ہے۔ 45 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لئے سفارش کی گئی ہے کہ انہیں بغیر محرم کے سفر کی گنجائش رکھی جائے۔ یہ شق خواتین کے سفر سے متعلق شرعی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ نئی حج پالیسی کے مسودہ کا جائزہ لے کر بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ صرف ان عورتوں کے لئے ہے جن کے مسلک میں اسکی اجازت ہو ۔ شریعت اسلامی میں خواتین کوئی بھی سفر جو شرعی مسافت 78 کلومیٹر سے زائد ہو بغیر محرم کے نہیں کرسکتیں۔ دارالعلوم دیوبند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مختلف تنظیموں اور علمی شخصیات نے اس سفارش کو سراسر غیر اسلامی اور شریعت میں مداخلت قرار دیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی نے خواتین کے بغیر محرم کے سفر سے متعلق نئی حج پالیسی کی سفارش پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لئے حج کا سفر بغیر محرم کے کرنا ممنوع ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ خواتین بغیر محرم کے سفر نہیں کرسکتیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ فقہا ء کا اجتہادی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اگر حکومت ہند بغیر محرم کے عورت کو حج پر جانے کی اجازت دیتی ہے تو یہ مذہبی امور میں براہ راست مداخلت ہوگی۔ حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ مذہبی امور میں حکومت کی مداخلت سے معاملات سدھرنے کے بجائے خراب ہوتے ہیں اور حکومت کی نیت پر ہی شبہ ہوتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ حکومت اگر اجازت دے تب بھی مسلم خواتین کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔