عادل فراز

یوروپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد سماجی و سیاسی سطح پر کئ اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ایسی تبدیلیاں جو عالمی سماج پر اثرانداز ہوئیں۔اس فکری انقلاب کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ اور فرانس جیسی ریاستوں میں انقلابات رونماہوئے ۔یہ فکری انقلاب مذہب ،معیشت،اور معاشرہ کے ہر طبقہ کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہرسوسائٹی میں ان نظریات کی گونج کسی نا کسی سطح پر سنائ دینے لگی ۔ان نظریات میں اہم نظریہ جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ’’لبرل‘‘ نظریہ تھا ۔اس نظریہ نےپہلی کاری ضرب مذہب اور معاشرت پر لگائ۔مذہب چونکہ ہمیشہ کچھ نادانوں اور کم علم ملائو ں کے ہاتھ کو کھلونا رہا لہذا مذہب سماج پر اپنی پوری توانائ کے ساتھ کبھی اثرانداز نہیںہوا۔ہر نیا ابھرتا ہوا نظریہ مذہب کے لئے صوراسرافیل ثابت ہوتا آیاہے مگر مذہب اپنی ضرورت اور حقانیت کی بنیاد پر زندہ رہتاہے ناکہ وہ اپنی بقاکے لئے نادانوں اور کٹھ ملائو ں کا مرہون منت ہے ۔مذہب جو نشاۃ ثانیہ کے آغاز تک ناقص نظام کا آئنیہ دار سمجھا جانے لگا تھا لبرل ازم نے اسکی قبرکھودنی شروع کردی ۔

لبرل یعنی؟:

لبرل لاطینی زبان کا لفظ ہے ۔اس لفظ کا مادہ ’’لائبر‘‘ یا ’’لیبر‘‘ یا اسی لفظ کا ایک متراد ف ’’لائبرالس‘‘ ہے۔اس لفظ کے معنی ’’جسمانی طور پر آزاد شخص ‘‘ کے ہیں۔یعنی ایسا شخص جو کسی کا غلام نہ ہو ۔اٹھارویں صدی تک اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا جاتا رہا ۔مگر اٹھارویں صدی کے بعد ’’فکر ی طور پر آزاد شخص‘‘ کو لبرل کہاجانے لگا۔یعنی ایسا شخص جو کسی قانون ،کسی مالک اور کسی ازم کا غلام نہ ہو ۔یہ رجحان مغربی معاشرہ کے ساتھ مشرقی معاشرہ میں تیزی کے ساتھ فروغ پاتا رہا ۔اسکا بنیادی سبب انٹلکچولز اور اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کی معاشرتی مجبوری تھی ۔

لبرل ازم کے دو بنیادی اصول ہیں مساوات اور آزادی۔قابل غور یہ ہے کہ مغرب کی کوکھ سے جنم لینے والی ہر تحریک کلّی یا جزوی طورپر ان دو نعروں کے اردگرد گھومتی ہے ۔ہر نئ تحریک کے جنم کے ساتھ ان نعروں کے معنی و مفاہیم بدلتے رہے مگر بنیادی نعرہ یہی رہا ۔مساوات اور آزادی کے مطالبہ کے پیچھے کلیسائ نظام کی آمریت و تشدد اور مذہبی اجارہ داری کی مخالفت تھی ۔لبرل و سیکولرازم اور ایسی دوسری تحریکوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مغربی معاشرت و تہذیب و ثقافت کا بغور مطالعہ کیا جائے ۔کلیسائ نظام کے علم کے بغیر لبرل و سیکولرازم جیسے نظریات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

لبرل کیوں وجود میں آئے :

مذہبی تعلیمات اور اسکے قانون پر اسی وقت انگشت نمائ ہوتی ہے جب الہامی قانون و تعلیمات میں خودساختہ تعلیمات اور شخصی آراء کو داخل کردیا جائے ۔سیکولرازم کے فروغ کی بنیادی وجہ مذہبی تعلیمات میں ملاوٹ اور مذہبی افراد کی اجارہ داری کی مخالفت تھی ۔لبرل ازم بھی مذہبی تعلیمات کی نارسائی اور مذہبی افراد کی سیاسی اجارہ داری کے خلاف ایک رجحان کی شکل میں سامنے آیا۔مذہبی آئین میں اس قدر خود ساختہ نظریات اور مفاد پرستی کو جگہ دی گئی کہ معاشرہ مذہب کو مساوات اور فکری آزادی کے خلاف سمجھنے لگا۔

اگر غور کیا جائے تو لبرل مذہب بیزار ہوتے ہوئے بھی ’’ازم‘‘ کے قانون کے پابندہیں۔یہ قانون ممکن ہے کہ الہامی قانون سے مختلف ہو ۔’’ازم‘‘ اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتاجب تک اسکا منثور اور آئین موجود نہ ہو ۔یعنی لبرل شخصی و فکری آزادی کا نعرہ ضرور بلند کرتے ہین مگر وہ بھی ایک ’’ازم‘‘ کے نظریہ کے پابند ہیں ۔یہ نظریہ ہی انہیں روشن خیال بناتاہے ۔اگر یہ نظریاتی بنیاد نہ ہو تو لبرل ازم بھی دیگر ’’ازمز‘‘ کی طرح لاقانونیت کا شکار ہوں اور روشنی خیالی کو جنگل راج کا نام دیدیاجائے۔

لبرل ازم ہو یا سیکولر ازم یہ تمام نظریات مذہب کے منفی کردار کو پیش کرنے کے لئے وجود میںآئے ۔ممکن ہے یہ تمام فلسفے اور نظریات کلیسائ نظام سے بغاوت کا نتیجہ ہو ں کیونکہ جن نظریات کو یہ تمام ’’ازم‘‘ پیش کرتےہیں اسلام صدیوں پہلے ان نظریات کی جامع تفصیل پیش کرچکاہے۔یعنی اسلام ’’روشن خیالی ‘‘ کی اپنی تعبیر پیش کرتاہے مگر وہ تعبیر لبرل ازم کے نارسا فلسفہ سے مختلف ہے ۔اسلام آزادی فکر کا مخالف نہیں ہے اور نا عدم مساوات کا قائل ہے ۔لیکن اسلام نظریہ مساوات اور آزادی فکر کی حدوں کا تعین کرتاہے ۔شخص کی آزادی پر پہرے نہیں بٹھاتا مگر اسے جانور کی طرح زندگی گزارنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔خداکی بندگی کا تصور شخص کی آزادی کی حدیں معین کرتاہے اور ایک مکمل آزاد انسان کو یہ احساس دلاتاہے کہ ہرعمل کے بعد اسکی جوابدہی اور سزاو جزا کی کسوٹی رکھی گئی ہے۔دوسرے یہ کہ لبرل نظریۂ مساوات اسلامی نظریۂ مساوات سے مختلف ہے کیونکہ لبرل نظریۂ مساوات کی حقیقت کھوکھلی اور دکھاوٹی ہے مگر اسلام کے نظریہ ٔمساوات کی عملی شکلیں تاریخ میں موجود ہیں۔خواہ وہ بلال حبشی ہوں،یا سلمان فارسی ،جون ہوں یا وہب کلبی ۔اسلام نظریہ ٔ مساوات کے تحت غیر مذہبوں کے افراد اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو سماج و سوسائٹی میں اونچا مقام حاصل کرنے کے لئے یکسانیت عطاکرنے کا قائل نہیں ہے بلکہ اسلام ہر انسان کے عمل اور اسکے کردار کی بنیاد پر جزاو سزا کا معیار طے کرتاہے ۔اسلام میں برابری کا تصور کلمۂ لاالہ زبان پر جاری کرنے کے ساتھ شروع ہوجاتاہے ۔یعنی مسلمان خواہ غریب ہو یا امیر،گورا ہو یا کالا،مسلمان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔اگر کسی کو کسی پر فضلیت حاصل ہے تو وہ ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔

مغربی معاشرہ میں مذہب مخالف نظریات اور آزادی ٔ فکر کے مطالبات کا وجود میں آنا مغربی معاشرہ پر کلیسائی نظام کا جبر اور مذہبی اجارہ داری کے خلاف عوام کا اتحاد سبب بنا۔کلیسا اپنے اختیارات اور اقتدار کی وسعت کے لئے مذہب کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام مذہبی جگلروں کی مخالفت کی ہوڑ میں مذہب مخالف بھی ہوگئی۔مغربی معاشرہ میں ایسی تحریکوں کے جنم لینے اور کامیاب ہونے کے پیچھے کئ اہم وجہیں تھیں۔کلیسائ نظام کے خاتمہ کے لئے عوام نے سیکولر ازم جیسے نظریہ کو اپنا لیا ۔سیکولرزاور لبرلز کو تحریک کے آغاز میں بڑی قربانیاں بھی دینی پڑیں کیونکہ کلیساکے مالک اپنے اقتدار کا خاتمہ نہیں دیکھ سکتے تھے ۔اسکے برخلاف مشرق وسطیٰ میں مذہب یا مذہبی اجارہ داری کے خلاف کسی بڑی تحریک نے جنم نہیں لیا اس کا بنیاد ی سبب یہ تھاکہ مشرق وسطیٰ کے اسلامی معاشرہ میںبنام اسلام حکومتیں کی جارہی تھیں ،عوام مذہب کے نام پر حکومت کرنے والوں کے خلاف تو رہی مگر مذہب کی مخالفت کا جواز تلاش نہیں کرسکی ۔یقینا یہ اسلام کی آفاقیت کی بنیاد پر ہی ممکن تھا کیونکہ اسلام کسی بھی طرح کے جبر و تشدد اور شخص کی حاکمیت کا قائل نہیں ہے ۔اسلام کا ایک بنیادی آئین ہے جسکے دائرہ میں انبیاء،اولیاء،بادشاہ اور جاگیردار سبھی آتے ہیں۔نام نہاد اسلامی حکومتوں کی مخالفت میں جو تحریکات شروع ہوئیں انکے پچھے جو فکر کارفرما تھی وہ اسلام مخالف نہیں بلکہ ملوکی نظام کی مخالف تھی۔ملوکی نظام آج بھی اسلامی نظام کا لبادہ اوڑھ کر زندہ ہے مگر اسکے مخالف بھی کسی نا کسی شکل میں موجود ہیں۔
روشن خیالی یعنی اسلام دشمنی :

ہم نے جس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی وہاں ایک پروفیسر صاحب ہوا کرتے تھے ۔مولویوں سے چڑے رہتے تھے مگر انکی کلاس میں ہمیشہ اکثریت مولویوں کی ہوتی تھی ۔کئ لیکچرز اور مختلف پروگراموں میں انکی تقاریر سے اندازہ ہواکہ مولویوں سے چڑنے کا بنیادی سبب مولویوں کی ناعاقبت اندیشی ،منجمد فکر،نئ تہذیب سے بیزار ی اور دنیاوی تعلیم کے ماہرین کا احترام نہ کرنا تھا۔ظاہر ہے انکے اس چڑنے کی وجہ ذاتی عناد پر مبنی بھی تھی مگر یہ واضح ہوگیا کہ روشن خیالی کے نام پر یہ لوگ کیسے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں۔اگر روشن خیالی مولویوں سے چڑھنے ،انہیں برابھلاکہنے اور انکا نئے زمانہ سے ناواقف ہونا ہے تو پھر روشن خیالی کے غبارے کی ہوا نکلتی دکھائ دیتی ہے کیونکہ مذہبی لوگوں سے چڑھ کی ذاتی و سماجی وجہیں ہوسکتی ہیں مگر یہ چڑھ’’ازم‘‘ کا روپ دھارسکتی ہے یہ ممکن نہیںہے۔روشن خیال ہونا اچھی بات ہے مگر روشن خیالی کا مفہوم مذہب بیزاری اور مولویت دشمنی نہیں ہونا چاہئے ۔

روشن خیال مفکرین کا المیہ یہی ہے کہ وہ اب تک روشن خیالی کا پیمانہ طے نہیں کرسکے ۔اگر روشن خیالی کا مطلب مغرب کی اندھی تقلید اور ادھ ننگا گھومنا ہے تو یہ اپنی تہذیب کو کم آنکنے اور احساس کمتری کا شکار ہونے جیسا عمل ہے ۔جیساکہ کمال اتاترک اور ڈاکٹر طہ حسین جیسے مفکرین کا مانناہے کہ’’ ہمیں مغرب سے میٹھا کڑوا سب کچھ لینا ہوگا‘‘۔یہ فکر ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے روشن خیال مفکرین کس حد تک مغرب کی اندھی تقلید کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ہمارے نام نہاد روشن خیالوں نے روشن خیالی کا مفہوم یہی سمجھاہے کہ یوروپین کی طرح کپڑے پہنیں،انکی طرح معاشرتی نظام ہو ،وغیرہ ۔یہ لوگ مغرب کے معاشرہ کی فکری زبوں حالی ،تہذیبی تنزلی اورلاعلاج روحانی بیماریوں کی تاریخ سے نظریں چراتے ہیں ۔جبکہ مغرب کا معاشرہ خود اپنے نظام کے نقص اور کجی کا اعلان کرچکاہے ۔ کو اپنانا ہی روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامت تھی۔

لبرل مسلمان :

جدید نظریات کی یلغار نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا وہیں اسلامی معاشرہ کو بھی اپنی گرفت میں لیا ۔مسلمان ہمیشہ اندھی تقلید کا حامی رہاہے ۔اس اندھی تقلید نے ہمیشہ مسلمانوں کو بڑے نقصانات پہونچائے ہیں مگر اسکے باجود مسلمان اصل اسلامی تعلیمات کی پیروی نہ کرکے آج بھی اندھی تقلید کا شکار ہے۔مسلمانوں کا المیہ یہ رہاہےکہ وہ دوسروں کی تہذیب و ثقافت سے بہت جلد مرعوب ہوجاتے ہیں۔وفات رسول اسلامؐ کے بعد جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہواتو مسلمان ترقی یافتہ ممالک کے طرز معاشرت اور تہذیب و ثقافت کو دیکھ کر بھونچکے رہ گئے۔فاتحین بھی انکے طرز معاشرت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انکے ادب آداب کے طریقوں کو داخل اسلام کردیا گیا ۔بھلا ایسے فاتحین سے زیادہ لبرل تو آج کی سوسائٹی بھی نہیں ہے جو دوسروں کی تہذیب و ثقافت سے اس قدر مرعوب ہوتی ہو کہ انکے طریقوں کو داخل مذہب کرکے عوام پر تھوپ دے ۔چونکہ آغاز اسلام کا مسلمان بدبودارکچے گھروںاورپہاڑ کے درّوںمیں رہتا تھا،اسکی سب سے اچھی غذا کھجور،پانی شور اور لباس ٹاٹ کا ہوتا تھا ۔فتوحات کے بعد صحرائی تہذیب کے پروردہ سپاہیوں کی آنکھیں ایران و روم کی طرز معاشرت دیکھ کر چندھا گئیں ۔ مفتوحہ علاقوں کی تہذیب و ثقافت اسلامی تہذیب و ثقافت پر غالب آنے لگی ۔حکومتی نظام شاہانہ نظام میں بدل گیا اور مسلمان عوام مفتیوں کے فتووں پر عمل کرتے ہوئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی گئ۔

موجودہ عہد میں مسلمانوں کی لبرل سوسائٹی فقط نام کی حدتک مسلمان ہوتی ہے ۔چونکہ انکے آباء و اجداد مسلمان تھے اور مذہب کو الوداع کہنااتنا آسان نہیں ہوتاہے لہذا سماج میں اپنی شناخت مسلمان کے طورپر ہی قائم رکھتے ہیں مگر انکے نظریات و عقائد ،طریقۂ معاشرت اور نظام زندگی پر مغربی تہذیب غالب ہوتی ہے ۔یہ طبقہ شراب نوشی ،عیاشی،نائٹ کلبوں میں جانا،مذہب کا تمخسر ،اپنی تہذیب سے نفرت ،مغربی تمدن کی پیروی کرنااورخاص کرایک دوسرے کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے کو جائز سمجھتے ہیں،بسااوقات اس آزادی کے شکار محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔اگر کوئ انہیں انکی اس جسارت پر ٹوکتا ہے تو اسے رجعت پسند اور نئے سماج سے بیگانہ قرار دیتے ہیں۔یہ طبقہ غیر مسلموں کو خود سے قریب کرنے اور خود کو ترقی یافتہ و ماڈرن ثابت کرنے کے لئے بادل نخواستہ وہ سب کرتے ہیں جسکی اجازت انکا ضمیر نہیں دیتاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام امور کی انجام دہی کے لئے ’’لبرل‘‘ کا لبادہ اوڑھنا ضروری ہے ۔مغربی معاشرہ میں یہ تمام جسارتیں کنزرویٹو بھی کرتے ہیں۔تو کیا ان قدامت پرستوں کو ہم لبرل نہیں مان سکتے ؟

جاری