عادل فراز

شریعت میں مداخلت کی گندی سیاست اور مسلم خواتین کے حقوق کے سلسلے میں اٹھنے والی سرکاری آوازوں کا ہجوم فکر انگیزہے۔مسلمانوں کو غورکرنا چاہئے کہ آخر زعفرانی تنظیموں کو اچانک مسلمانوں کے مسائل سے اتنی دلچسپی کیسے پیداہوگئی؟حکومت کے زرخریدوں کا کہناہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور انکے مسائل کا حل تلاش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔کوئی ان سے سوا ل کرےکہ آیا ہندوستانی شہریوں اور خاص کر مسلمانوں کو درپیش مسائل پر حکومت نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے ؟کیا مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ صرف تین طلاق ہے؟حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی ،سماجی ،سیاسی اور اقتصادی پسماندگی دورکرنے کے لئے کونسا لائحۂ عمل ترتیب دیاہے ؟بے گناہ مسلم نوجوانوں کی جاری گرفتاریاں ،فرضی انکائونٹرزاور مذہبی انتہاپسندی کے بڑھتے جنون پر قابو پانے میں حکومت ناکامی کا شکار کیوں ہے یا پھر یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے۔اگرحکومت مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف تین طلاق کوہی مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ بنانے پر تلی ہے تو پھر کیوں نا یہ سمجھا جائے کہ سرکار جان بوجھ کر شریعت میں مداخلت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ’’ہندوراشٹر‘‘ کے نظریہ پر عمل پیراہے ؟۔واضح رہے کہ ہم نا تو طلاق ثلاثہ کے حامی ہیں اور نہ حکومت کے مخالف ۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت فضول مباحث میں الجھ کر بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ نہ ہٹائے ۔اگر حکومت ہر طبقہ کے لئے یکساں رویہ اختیار کرے گی اور اپنی پالسیوں میں ہر طبقہ کو اسکی ترجیحات کے ساتھ شامل کرے گی اس حکومت کی مقبولیت اور بقا کے لئے یہی کافی ہوگا۔کسی دوسرے کے شرعی مسائل میں مداخلت کرنا تشدد کو ہوا دینے کی کوشش ہے اس لئے کہ ہر مذہب میں کچھ نا کچھ نازک مسائل ہوتے ہیں جو دوسرے مذہب کے افراد کے لئے تنقید کاسبب بنتے ہیں ۔ان نازک مسائل کو چھیڑنا عوام کو جارح بنانے کی سوچی سمجھی سازش ہوتی ہے ۔تاریخ میں اسکی مثالیں کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔

اگر طلاق ثلاثہ کی بنیاد پر مسلم خواتین کی حق تلفی ہورہی تھی جیساکہ ہورہی ہے ،حکومت کو چاہئے تھاکہ وہ اس زیادتی کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھتی ۔ساتھ ہی مسلم پرسنل لا ء بورڈ کو مسلم خواتین کی حق تلفی پرمتوجہ کرنے کے ساتھ کاروائ کرنے پر مجبور کیاجاتا۔اس لئے کہ طلاق ثلاثہ مسلم پرسنل لاء کا قانون ہے ناکہ ہندوستانی آئین کا حصہ ہے جیساکہ عدلیہ ظاہرکررہی ہے کہ مسلم پرسنل لاء ہندوستانی آئین سے بالاتر نہیں ہے جبکہ ہندوستانی آئین کی بنیاد پر ہی مسلم پرسنل لاء کو تسلیم کیا گیا تھا اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے ادارے بھی غیر قانونی قرار پائیں گے ۔ ہر حق پسند انسان جانتاہے کہ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے جسٹس حضرات بھی قانونی دائرے میں رہتے ہوئے بھی اپنے اختیارات کا مکمل استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ ان پر حکومت کا دبائو ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلے متنازع رہے ہیں ۔حکومت کی پالیسی بھی یہ واضح کرتی ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے خلاف وہ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور افراد کو متحد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حکومت نے پہلی سیندھ مسلمانوں میں ہی لگائی اور مسلمانوں کو ہی مسلم پرسنل لاء کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیا۔ جس طرح حکومت نے چند نام نہاد مسلم تنظیموں اور فیمنسٹ مسلم خواتین کا سہارا لیکر طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو چھیڑا ہے وہ بہت خطرناک عمل ہے ۔اس لئے مسلمان یہ جانتے ہوئے بھی کہ طلاق ثلاثہ کا قانون انکی عورتوں کے لئے عذاب بناہواہے پھربھی حکومت کاساتھ نہیں دینگے ۔ساتھ ہی مسلم پرسنل لاء بورڈبھی اس قانون کی حقیقت اور کمزور ی کے علم کے باوجودس لئے حکومت کے خلاف کمربستہ ہے کیونکہ مسلمانوں کے مسائل میں حکومت کی نیت خالص نہیں ہے ۔جبکہ تین طلاق پر پابندی کے خلاف مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی دستخطی مہم ناکام ثابت ہوئی ہے کیونکہ پانچ کروڑ دستخط مسلمانوں کی اکثریت کا فیصلہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی ایسے مسائل پر از سرنو غورکرنا ہوگاجنکا قرآن اور سنت پیغمبرؐ سے کوئ تعلق نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستانی سماج میں صرف مسلم خواتین کی حق تلفی ہورہی ہے ؟تین طلاق جیسی روایت کیا صرف مسلمانوں میں زندہ ہے ؟آیا ہندو برادریاں ایسے قوانین کی بنیاد پر ہورہی حق تلفی سے عاری ہیں ۔اہل ہندومیں طلاق کا فیصد مسلمانوں سے کم ہے یا زیادہ اس مسئلہ پر بھی حکومت تحقیقی رپورٹ پیش کرے ۔ساتھ ہی حکومت کے لئے برا چیلنچ یہ بھی ہے کہ جہیز کی ہوس نے کتنی ہندو خواتین کی زندگیاں ختم کردی ہیں یا تباہ کردی ہیں اس کا جائزہ پیش کیا جائے۔کیا ایسے تمام مسائل تین طلاق پر پابندی سے زیادہ اہم نہیں ہیںں مگر حکومت انتقامی جذبہ کے تحت کاروائ کرر ہی ہو تو اسے سامنے کے حقائق بھی نظر نہیں آتے ۔حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ وہ تین طلاق کے مسئلے پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کریگی ۔حکومت نے زر خرید مسلمانوں کو آلہ ٔ کار بناتے ہوئے ایسی درجنوں مسلم تنظیمیں بنارکھی ہیں جو ایسے مسائل پر انکے لئے کام کررہی ہیں ۔ان تمام تنظیموں کی باگ ڈور آرایس ایس کے رہنمائوں کے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے ان سیمیناروں میں ہونے والی گفتگو پر بھی زعفرانی تنظیموں کے ایجنڈے کا اثر ہوگا۔اس لئے ایسے سیمیناروں کے بجائے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم دانشور حضرات تین طلاق کا حل تلاش کریں ۔بلکہ حل تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن و
سنت میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے مگر اندھی تقلید انسان کو کٹ حجتی پر آمادہ کرتی ہے۔

قابل غور یہ ہے کہ تین طلاق کے خلاف حکومت خواتین کا سیاسی استعمال کررہی ہے۔ کیا مسلمان نہیں جانتاہے کہ جن خواتین کو میڈیا کے سامنے حکومت پیش کررہی ہے انکی حقیقت کیاہے ؟جو خواتین عورتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کررہی ہیں انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کے بنیادی مسائل کیا ہیں اور اگر عورتوں کو انکے حقوق دینے کی بات کی جائے تو اولیت کن مسائل کو دینا ضروری ہے۔کیونکہ انہیں ڈبیٹ کے لئے بیانات رٹوائے جاتے ہیں اور وہ رٹو طوطے کی طرح نیوز چینلوں پر آکر وہی دہراتی ہیں جو انہیں رٹایا گیا ہوتاہے ۔اکثر خواتین شاید مسلمان بھی نہ ہو ں کیونکہ برقعہ کے پیچھے چھپا ہوا چہرہ کس مذہب کی عورت کا ہے یہ کسے معلوم ؟ہم تو صرف چہرہ پر برقعہ دیکھ کریہ سمجھتے ہیں کہ بیان دینے والی خاتون مسلمان ہے ۔جس طرح ہر داڑھی رکھنے والا اور کرتا پائجامہ پہننے والا دہشت گرد مسلمان سمجھاجاتاہے ۔

دوسرے مسالک کے افرد کوبھی یہ سمجھنا ہوگا کہ تین طلاق پر مسلم پرسنل لاء بورڈ یا کسی ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانا دشمن کی سازش کا حصہ بننے جیسا عمل ہے ۔کیونکہ آج حکومت کسی ایک فرقہ کے نازک شرعی قانون کو ایشو بنارہی ہے کل کسی دوسرے فرقہ کے مسائل کو ایشو بناکر سیاست کی جائے گی ۔اس طرح جو لوگ آج ایک مخصوص فرقہ کے خلاف بیان بازی کرکے خوش فہمی کا شکار ہیں کل جب ان پر وقت پڑیگا تو انہیں دور دور تک اپنا حامی نظر نہیں آئے گا۔اس لئے اتحاد اسلامی کا ثبوت دیتے ہوئے مشترکہ مسائل کا حل آپسی گفت و شنید سے نکالیں۔انتشار کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا۔بقول شاعر ؎

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سبکے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں