عادل فراز

الکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد آخر کار سماجوادی پارٹی کا انتخابی نشان”سائیکل“ اکھلیش یادو کو مل گیا۔”سائیکل نشان“ کا ملنا اکھلیش یادو کی سیاسی جیت اور ملائم سنگھ یادو کے خاتمہ کا اعلان بھی ہے۔ملائم سنگھ یادو الکشن کمشنر کے سامنے قابل قبول دستاویز پیش نہیں کرسکے ساتھ ہی پارٹی کے ممبروں نے بھی عین وقت پر انکا دامن چھوڑکر اکھلیش یادو کادامن تھام لیا۔اس وقت ملائم سنگھ یادو اپنی سیاسی حیثیت کا اندازہ بخوبی کرچکے ہونگے۔کیونکہ اب پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو ہیں اور قانون بھی انکے ساتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکھلیش یادو کے سامنے اسمبلی انتخاب میں انکا کوئی نمائندہ میدان میں نہیں ہوگا۔ملائم سنگھ کے لئے عمر کے اس آخری پڑاؤ میں بہتر یہی ہوگا کہ اب وہ اکھلیش یادو کی حمایت کے ساتھ انکی رہنمائی کریں اور مزید بدنامی سے خود کو محفوظ رکھیں۔

کچھ تجزیہ نگارمانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل اختیارات کی منتقلی کا تھا۔ملائم سنگھ یادو نے بڑی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ پارٹی کے تمام تر اختیارات اکھلیش کو منتقل کردیے ہیں۔اس بات کو تسلیم کیا جاسکتاہے مگر واقعیت اسکے برخلاف ہے۔اگر یہ کھیل فقط اختیارات کی منتقلی کا ہوتا تو یوپی اسمبلی انتخاب سے ٹھیک پہلے یہ ڈرامہ شروع نہ ہوتا۔اس لئے کہ اس ڈرامہ کا جتنا نقصان یوپی اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو ہوگا اسکا اندازہ ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو کو ہوچکا ہے۔کانگریس سے اتحادکا اعلان اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کی دلیل ہے۔اگر یہ کھیل اختیارات کی منتقلی کا ہوتا تو پانچ سال کی مدت میں ہوچکا ہوتا۔ ملائم سنگھ یادو اگر یہ چاہتے تھے کہ گزشتہ چار سالوں میں اکھلیش خود کو سیاسی طور پر مضبوط کرلیں اور عوام انکی حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اسکے بعد پارٹی کے تمام اختیارات کا منتقل کرنا مناسب ہوگا تب بھی یہ کھیل غیر سیاسی لگتاہے۔کیونکہ چار سالوں کی حصولیابیوں کے بعد پانچواں سال اکھلیش یادو کو دوبارہ وزیر اعلیٰ کے روپ میں پیش کرکے ریاست میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کا تھا۔پانچویں سال میں اختیارات کی منتقلی کی کیا منطق ہوسکتی ہے کیونکہ اس کھیل نے ریاست میں سماجوادی پارٹی کی بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اختیارات کی منتقلی کا کھیل اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد کھیلا جاتا۔اگر انتخاب میں اکھلیش کو نمایاں کامیابی حاصل ہوجاتی اسکے بعد بھی ملائم سنگھ یادو یہ ڈرامہ شروع کرسکتے تھے۔اور اگر انتخاب میں اکھلیش یادو ناکام ہوتے تو یہ کھیل اگلے الکشن تک ملتوی کردیا جاتا۔یعنی اختیارات کی منتقلی کا کھیل ہر حال میں اسمبلی انتخاب کے بعدسود مند تھا۔

اب حقیقت کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ریاست میں سماجوادی حکومت بننے کے ساتھ ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت اکھلیش کو وزیر اعلیٰ بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی تھی مگراس وقت ملائم سنگھ یادو پارٹی کی طاقت اور اصل چہرہ تھے۔ریاست ملائم سنگھ کی سیاسی بصیرت اور اختیارات کی حدیں پہچانتی تھی۔ملائم سنگھ یادو کے اثرات سے پارٹی کی ثانوی قیادت بھی خوب واقف تھی لہذا ملائم سنگھ یادو کے فیصلہ کو ترجیح دی گئی۔ہزار مخالفتوں کے باوجود اکھلیش یادو وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔اکھلیش یادو اقتدار کی کرسی پر ضرور بیٹھے مگر عوام میں یہ مشہور کردیا گیا کہ ریاست میں کئی وزیر اعلیٰ ہیں،اس پروپیگنڈہ کا اثر اکھلیش یادو کی سیاسی شبیہ کو مجروح کررہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ تقریبا چار سالوں تک فیصلہ بھلے ہی وزیراعلیٰ کے قلمدان سے جاری ہوا ہو مگر میڈیا کے ذریعہ عوا م میں یہی تاثر گیا کہ اکھلیش کے تمام فیصلے دوسرے افراد لیتے ہیں۔گویا اکھلیش یادو کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی ہے جو حرکت کرنے میں بھی دوسروں کی محتاج ہوتی ہے۔

اکھلیش یادو بھی دوسروں کے اشاروں پر ناچتے ناچتے تھک چکے تھے۔انکا سیاسی مستقبل خطرے میں تھا۔اگر وہ عوام تک یہ پیغا م پہونچانے میں کامیاب نہ ہوتے کہ اب وہ آزادانہ طور پر فیصلے لینے کے لئے مجاز ہیں شاید اس وقت ریاست کی عوام، پارٹی کے رضاکار اور سیاسی رہنما اکھلیش کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے۔اکھلیش یادو نے آخری برس میں عوام کو یہ یقین دلادیا تھاکہ ریاست کا وزیر اعلیٰ ایک ہے اور تمام فیصلوں کا ذمہ دار بھی۔عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد اکھلیش یادو نے اپنے حقوق اور اختیارات کے لئے محاذ کھول دیا۔ملائم سنگھ یادو اور انکے حامی اکھلیش سے اس باغی تیور کی امید نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ پہلے پہلے اکھلیش کو ڈرا دھمکاکر دبانے کی کوشش کی گئی۔ملائم سنگھ یادو کو بیٹے کے خلاف استعمال کیا گیا اور تمام اختیارات سلب کرلئے گئے مگر اکھلیش یادو اپنی سیاسی حیثیت کا اندازہ کرچکے تھے لہذا وہ کسی بھی محاذ پر نہ پیچھے ہٹے اورنہ کسی طرح کا دباؤ محسوس کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ افراد جو ملائم سنگھ یادو اور شیوپال سنگھ کے قریبی تھے وہ بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ انکا سیاسی مستقبل اکھلیش یادو کے ہاتھوں میں ہے لہذا وہ اندرون خانہ اکھلیش یادو کے ساتھ ہولیے۔یہی وجہ ہے کہ جب قومی نشان حاصل کرنے کے لئے ملائم سنگھ نے الکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکٹایا تو انکا ساتھ پارٹی کے تمام لوگ چھوڑ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کا انتخابی نشان اکھلیش یادو کو مل گیا۔اس پورے کھیل کی تہہ تک جاکر یہی اندازہ ہوتاہے کہ یہ اختیارات کی منتقلی کا ڈرامہ نہیں تھا بلکہ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کی جد و جہد تھی۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اکھلیش یادو عوامی اسٹیج پر اپنے باپ کے ساتھ نازیبا برتاؤ نہ کرتے۔اکھلیش کا رویہ واضح کرتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت منوانے اور اختیارات حاصل کرنے کی جد و جہد میں کس حد تک جارح ہوگئے تھے۔

اس پورے کھیل میں جیت ضرور اکھلیش کی ہوئی ہے مگر ریاست میں انکی پارٹی کی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔”سائیکل“ نشان کا ملنا اکھلیش کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ ریاست کے پسماندہ اور دیہی علاقو ں میں نشان کی بنیاد پر ہی پارٹی کی شناخت ہوتی ہے۔اس طرح نشان کے بدلنے سے جو نقصان ہونے والا تھا وہ محفوظ رہ گیا۔انتخابی نشان محفوظ رہنے پر اکھلیش یادو ضرور سکون محسوس کررہے ہونگے مگر انکا اصل امتحان اب شروع ہوگا۔اگر ریاست میں سماجوادی پارٹی مضبوط ہوتی ہے اور اکھلیش دوبارہ اقتدارمیں آتے ہیں تو انکا مستقبل محفوظ ہے اور انکے دشمنوں کے منہ پر تالے پڑ جائیں گے۔لیکن اگر ریاست میں سماجوادی پارٹی کمزور ہوتی ہے اور کھلیش حکومت بنانے میں ناکام ہوتے ہیں تو انکے مخالفوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائیگا۔اسی ڈر کی وجہ سے اکھلیش کانگریس کے ساتھ اتحاد کے لئے راضی ہوئے ہیں۔سماجوادی پارٹی سے اتحاد کے بعد کانگریس کو اترپردیش میں اپنی سیاسی حیثیت کا اندازہ بھی ہوا ہوگا،ساتھ ہی راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کے سیاسی قد کا اندازہ بھی ہوگیا ہوگا۔