عادل فراز

کہتے ہیں سیاست طوائف کی طرح ہوتی ہے جو کسی کی سگی نہیں ہوتی۔

ریاست اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی حالت زار دیکھ کر کوئی بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتاہے۔اقتدار کی حرص اور بالادستی کی جنگ میں پارٹی لب گور ہے۔جس طرح کانگریس خاندان پرستی کی بنیاد پر تباہ ہوگئی اسی طرح سماجوادی پارٹی بھی خاندان پرستی کا شکار ہوگئی۔کانگریس میں لیڈر تو بہت ہوئے، اہم سیاسی شخصیتیں سیاسی افق پر ابھر کر سامنے آئیں،وزیر اعظم کی کرسی بھی گاندھی خاندان نے منموہن سنگھ کو سونپ دی مگر حکومت ہمیشہ گاندھی خاندان نے ہی کی۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس سے نفرت کا لاوا عوام میں اندر ہی اندر دہکتا رہا۔آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ آج کانگریس اقتدار سے باہر ہے اور موجودہ حالت ایسی نہیں ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آسکے۔بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ملک کی اکثریت کو ناپسند ہوتے ہوئے بھی کانگریس دشمنی میں عوام بی جے پی کے ساتھ جانے پر مجبور ہوئی۔اگر کانگریس خاندان پرستی سے ہٹ کر عوام کے لئے ہر لمحہ کوشش کرنے والے نوجوانوں کو اہمیت دیتی توآج اسکی ایسی ناگفتہ بہ حالت نہیں ہوتی۔سماجوادی پارٹی کا حال بھی کچھ کچھ کانگریس جیساہی ہے۔سماجوادی پارٹی میں لیڈر تو بے شمار ہیں اور نوجوانوں کو خوش کرنے کے لئے کئی ”یوا بریگیڈ“ بھی بنارکھی ہیں مگر پارٹی میں یادو خاندان کے علاوہ نا تو کسی کی بات چلتی ہے اور نہ کسی کو اہمیت دی جاتی ہے۔حکومت کے تمام بڑے اور اہم عہدے یادو خاندان میں بنٹے ہوئے ہیں۔کچھ وزارتیں جو دوسروں کو دی گئی ہیں وہ اقلیتوں کو خوش کرنے،مخالفوں کی زبانیں بند کرنے اور پارٹی کی ساکھ بچانے کے لئے دی گئی ہیں۔ریاست میں قلمدان کسی کے پاس بھی ہو مگر قلمدان کی ساری روشنائی یادو خاندان ہی سپلائی کرتاہے۔

اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ اسمبلی انتخابات میں نمایاں کامیابی ملنے کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے سماجوادی پارٹی کی پہلی پسند اکھلیش نہیں تھے۔ملائم سنگھ کی دلچسپی اور ضد کی بنیاد پر اکھلیش کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا تھا۔اکھلیش وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ضرور بیٹھے مگر انکی حیثیت ایک ایسے باد شاہ کی تھی جسکے تمام فیصلے وزیر لیتے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ اکھلیش یادو نے خود مختاری کا اعلان کیا اور پارٹی کے تمام وزیر جو خود کو بادشاہ تصور کررہے تھے اکھلیش کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔حکومت کے آخری دنوں میں اکھلیش یادو چاہتے تھے کہ ریاست کی عوام انکے اختیار اور دبدبہ کو پہچان لے۔لہذا وہ ایک خود مختار وزیر اعلیٰ کی طرح میدان میں اترے اور اپنی حکمت عملی اور فیصلوں پر سبکو حیران کردیا۔وہ لوگ جو شیوپا ل،ملائم سنگھ اور رام گوپال یادو سے قربت کی بنیاد پر من مانی کرتے آرہے تھے اور بغیر کسی قربانی کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے انہیں اکھلیش کی یہ خودمختاری پسند نہیں آئی۔لہذا اکھلیش کی مخالفت میں صفیں بن گئیں،شیوپال یادو،رام گوپال اور دوسرے خاندانی لوگوں کے کان بھرے گئے،غلط فہمیاں پیدا کی گئیں جسکے نتائج ریاست کی عوام کے سامنے ہیں۔

اکھلیش یادو حکومت میں موجود غیر اخلاقی عناصر سے پریشان تھے۔ایسے لوگ جنکی بنیاد پر ہمیشہ سماجواد ی پارٹی پر ”غنڈہ راج“ کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔ظاہرہے یہ لوگ ملائم سنگھ یادو،شیوپال اور رام گوپال یادو کے منظور نظر لوگ تھے۔اکھلیش نے ایسے لوگوں پر شکنجہ کسنا شروع کیا تو یہ لوگ اکھلیش کے خلاف کھڑے ہوگئے۔بظاہر تو یہ لوگ خاندانی لڑائی کے منظر میں نہیں ہیں مگر پس منظر میں یہی لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔چونکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت ایسے لوگوں سے گھری ہوئی ہے اور سماجوادی پارٹی نے ہمیشہ ایسے لوگوں کی پذیرائی کی ہے لہذا ان کو پارٹی سے بے دخل کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا اکھلیش یادو سمجھ رہے تھے۔کیونکہ اکھلیش یادو کے سیاسی حلقہ میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جنکے سیاسی کردار داغدار ہیں۔بہر حال اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں سماجوادی پارٹی کی حکمت عملی پوری طرح ناکام ہوگئی ہے۔یوپی اسمبلی انتخاب سے پہلے پارٹی میں گھمسان کا رن پڑنا پارٹی کی کمر توڑ گیاہے۔ریاست میں سماجوادی پارٹی اپنا مقتل خود تیار کررہی ہے۔آج تک کسی سیاسی پارٹی میں اس طرح کے جھگڑے نہیں ہوئے۔یوپی اسمبلی انتخاب سے پہلے سماجوادی پارٹی نے اپنی شکست کا اعلان کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مخالف جماعتیں اس پورے مسئلے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔انہیں کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے جب سپا کی اعلیٰ قیادت ہی ایک دوسرے کی قلعی کھولے دے رہی ہے۔سماجوادی پارٹی خود بھی بہتر جانتی ہے کہ انکی آپسی لڑائی اب پارٹی کی لڑائی بن گئی ہے۔اس لڑائی کی زدمیں پورا اترپردیش ہے اور اترپردیش کی پوری سیاست اسکی شکار ہے۔اس لڑائی کا پورا فائدہ بی جے پی اور بی ایس پی کو حاصل ہوگا۔مسلمان اس وقت کشمکش کا شکار ہے۔اسکے پاس کوئی مضبوط متبادل موجود نہیں ہے لہذا وہ یا تو بی ایس پی کے ساتھ جائیں گے یا دوسرا متبادل تلاش کریں گے۔بی جی پی یوپی انتخاب میں مسلمانوں کے لئے کسی بھی طرح کا متبادل پیش نہیں کرتی۔بی جے پی اپنے کھودے ہوئے کنویں میں گرتی نظر آرہی ہے۔ہاں یادوسماج بی جے پی کے ساتھ جاسکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی وہ بی جے پی کے ساتھ جاچکے ہیں۔

سماجوادی پارٹی میں اس وقت اختیارا ت کی جنگ چل رہی ہے۔پارٹی میں کبھی اکھلیش یادو کو مکمل اختیارات نہیں دیے گئے۔اکھلیش یادو بذات خود قبول کرچکے ہیں کہ وہ ”آدھے سی ایم“ہیں۔ملائم سنگھ یادو چاہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر اکھلیش یادو ررہیں مگر تمام اختیارات انکے پاس رہیں۔شیوپال یادو چاہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو مگر اختیارات انکے پاس ہوں۔ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش بھی انکے اختیارات میں دخل اندازی نہ کرسکیں۔اکھلیش کا خواب تھاکہ وزیر اعلیٰ کے تمام اختیارات کے حقدار وہی ہیں۔ان اختیارات میں نہ ملائم سنگھ دخیل ہوں اور نہ شیوپال یادو۔مگر اکھلیش کا خواب شرمندہ ئ تعبیر نہ ہوسکا۔ہمیشہ انکے اختیارات کا استعمال دوسرے کرتے رہے۔وزیراعلیٰ بننے کے بعد اکھلیش نے اپنا دبدبہ قائم نہیں رکھا،وہ پارٹی میں اعلیٰ قیادت کے زیر اثر رہے۔یہی وجہ ہے میڈیا اور حزب مخالف کا الزام ہمیشہ یہی رہا کہ ریاست میں ایک وزیراعلیٰ نہیں ہے بلکہ کئی وزیر اعلیٰ ہیں۔اگر اکھلیش وزیر اعلیٰ کے اختیارات کے مس یوز پر نارا ض تھے تو اس ناراضگی کا اظہار بہت پہلے کرنا چاہئے تھا۔انکی خاموشی کو کمزوری سمجھا گیا اور پارٹی کے قدآور لیڈر ان پر حاوی ہوتے گئے۔گزشتہ چار سالوں میں بہت کم فیصلے ایسے تھے جو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اکھلیش نے لئے ہوں۔ان فیصلوں میں شیوپال یادو،رام گوپال یادو،اعظم خان اور دوسرے لیڈروں کا بھی اثررہاہے۔اکھلیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے فورا بعد پارٹی کی اعلیٰ قیادت مطمئن ہوگئی تھی کہ اب اکھلیش وہی کریں گے جو وہ لوگ چاہیں گے۔اگر اسی وقت اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ یادو اپنے اختیارات کا پورا استعمال کرتے اور ہرمعاملہ کو پوری طرح واضح کردیا جاتا تو آج گھر کے جھگڑے سڑک پر نہ سلجھ رہے ہوتے۔ملائم سنگھ یادو بھی یہی چاہتے تھے کہ اکھلیش وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ہوں مگر پارٹی کی اعلیٰ قیادت یعنی انکے بھائی بھتیجے اور منہ لگے وزیر حکومت کریں۔اسکا نقصان اکھلیش کو کم پارٹی کو زیادہ ہوا۔ہر ایک اپنے مفادات کے حصول میں لگ گیا اور گزشتہ چار سالوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے پارٹی کی ساکھ پر بٹہ لگا۔ان تمام واقعات کے ذمہ دار اکھلیش نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو آج بھی وزیر اعلیٰ کو اپنی کٹھ پتلی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔لہذا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پارٹی میں پورا جھگڑا ”کل اختیارات“ کاہے۔اکھلیش نہیں چاہتے ہیں کہ انکی آڑ میں کوئی دوسرا حکومت کرے۔اس پورے معاملے میں ملائم سنگھ یادو بہت کمزور ثابت ہوئے۔پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں چاہئے تھاکہ تمام مسائل کو ڈرائنگ روم میں سلمجھا یا جاتا مگر وہ خود مسائل کو سلجھانے کے لئے سڑک پر اتر آئے۔یہاں ملائم سنگھ سیاسی طور پر بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔اکھیلیش یادو اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں اگر وہ ہر بار یہی کہہ کر پیچھے ہٹتے رہیں گے کہ آخری فیصلہ نیتا جی کا ہوگا تو پھر انہیں وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔اس وقت ریاست انکی طرح دیکھ رہی ہے اور انکے فیصلے کی منتطر ہے۔ملائم سنگھ یادو پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مسائل سلجھانے میں اپنا کردار نبھائیں مگر اکھلیش اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہ کریں۔

جھگڑے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کی کمان کسکے ہاتھ میں رہے۔جن لوگوں نے برس ہا برس سے پارٹی کے لئے محنت کی ہے وہ اکھلیش کو اپنے سروں پر مسلط نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ لوگ پارٹی کے کل اختیارات اکھلیش کو سونپتے ہوئے اپنی بے عزتی محسوس کررہے ہیں۔لڑائی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملائم سنگھ کا اصل جانشین اور وارث کون ہے؟۔اکھلیش کئی بار دہرا چکے ہیں کہ نیتا جی کے اصل وارث وہی ہیں۔مگر انکے کہنے سے کیا فرق پڑتاہے اگر نیتاجی ہی انہیں اپنا وارث تسلیم نہ کریں۔نیتا جی آج بھی اکھلیش سے زیادہ شیوپال یادو،اعظم خان اور امر سنگھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو امر سنگھ کو دوبارہ پارٹی میں جگہ نہیں دی جاتی جبکہ ملائم سنگھ بخوبی جانتے ہیں کہ امر سنگھ نے سماجوادی پارٹی سے نکلنے کے بعد انکے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں کی تھیں۔رہی اعظم خان کی بات تو ملائم سنگھ یادو کو مسلمانوں کو رجھانے کے لئے ایک مسلمان چہرہ درکار ہوتاہے۔اعظم خان انکے لئے یہ کام بخوبی کرتے ہیں۔ملائم سنگھ کو ”نامرد“ کہنے کے بعد بھی وہ پارٹی میں اہم عہدوں پر فائزرہے ہیں اس دعوی ٰ کی دلیل ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ریاست میں اکھلیش کی شبیہ بے داغ تھی۔ہر کوئی انکے کام کی سراہنا کررہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ سماجوادی پارٹی میں اکھلیش کو نشانہ بنا یا گیا جبکہ اکھلیش یادو سماجوای پارٹی کا بااعتبار اور مشہور چہرہ نہیں تھے۔شیوپال یادو یا دوسرے بڑے لیڈروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔جبکہ بد عنوانیوں میں ملوث دوسرے بڑے نیتاؤں کو الکشن میں نشانہ بنانا بہت آسان تھا۔مگر اکھلیش کی سیاسی حیثیت پر سوال کھڑے کردیے گئے تاکہ اکھلیش کی شبیہ کو داغدار کردیا جائے۔گزشتہ چارسالوں میں اکھلیش پوری تب و تاب کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے تھے۔ریاست میں انکی شبیہ اچھی بن رہی تھی۔لہذا انکا سیاسی کیریر ختم کرنے کی سازش رچی گئی۔اس سازش کے پیچھے آرایس ایس نواز چہرے شامل ہیں۔کیونکہ ریاست میں سماجوادی پارٹی اور اکھلیش کے ہوتے ہوئے بی جے پی کو واضح اکثریت ملنا ناممکن ہے۔بی جے پی کی سازش کا شکار پوری سماجوادی پارٹی ہوتی نظر آئی۔پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی اس سازش کوسمجھنے میں ناکام رہی۔اور ایسا ماحول بنادیا گیا کہ بی جے پی اور بی ایس پی کو اب مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سماجوادی پارٹی کے تابوت میں آخری کیل کون ٹھوکتاہے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔