امریکی صدر باراک اوباما نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطینیوں اور اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے تنازع کا حل تلاش کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو یہ ادارک کرنا چاہیے کہ فلسطینی اراضی پر یہودی توسیع پسندی اور اس کا فوجی قبضہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گا۔ اسی طرح فلسطینیوں کو بھی تشدد کا راستہ ترک کرکے اسرائیل کو آئینی ریاست تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب دونوں فریقین ان حقائق کو تسلیم کرلیں تو وہ قیام امن کی مساعی سے مستفید ہو سکیں گے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے مناسب ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں اور تشدد کا راستہ چھوڑ دیں۔ اسرائیل کو بھی یہ ادراک کرنا ہوگا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نا تو یہودی آباد کاری کی پالیسی پرعمل پیرا رہ سکتا ہے اور نہ ہی فلسطینی اراضی پر اس کا قبضہ قائم رہے گا۔
براک اوباما نے کہا کہ شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری خونریز جنگ میں کسی کی فوجی جیت نہیں ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ کا سفارت کاری ہی کے ذریعے خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ:''(شام میں) کوئی فوجی جیت حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمیں سفارت کاری کا مشکل راستہ اختیار کرنا ہوگا جس کا مقصد تشدد کا خاتمہ ہو اور ضرورت مندوں تک امداد بہم پہنچائی جائے''۔
ان کی اس تقریر سے چند گھنٹے قبل شامی فوج نے ملک میں امریکا اور روس کی ثالثی میں گذشتہ سوموار سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کا ا علان کردیا ہے جبکہ شمالی شہر حلب کے نزدیک اقوام متحدہ کے امدادی قافلے میں شامل اٹھارہ ٹرکوں کو ایک فضائی حملے میں تباہ کردیا گیا ہے۔شام اور روس نے اس امدادی قافلے کو فضائی حملے میں نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
درایں اثناء صدر اوباما کے وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کے بعد بالاصرار اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی بدستور زندہ ہے۔
وہ نیویارک کے ایک ہوٹل میں بین الاقوامی شام امداد گروپ میں شامل تیئیس ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ اسی ہفتے مذاکرات کا ایک اور دور ہوسکتا ہے اور جنگ بندی ابھی مردہ نہیں ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی اسٹافن ڈی مستورا کا کہنا ہے کہ از سر نو جنگ بندی کی ابھی امید باقی ہے۔البتہ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وفود نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ جنگ بندی خطرے میں ہے۔
جان کیری اور سرگئی لاروف کی مشترکہ صدارت میں شام گروپ کے اجلاس میں سخت تناؤ دیکھنے میں آیا ہے۔شرکاء کے درمیان جنگ بندی کو برقرار رکھنے یا شام امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوئی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔
اجلاس کے بعد فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں مارک آیرو کا کہنا ہے کہ ''اب دوسرے ممالک کو ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان دوطرفہ اختلافات کے خاتمے کے لیے مدد دینی چاہیے کیونکہ اب روسی اور امریکی اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتے ہیں''۔