ترک باشندہ فتح اللہ گولن جس کے خاندانی نام "گولن" کا معنی "مسکرانے والا" ہے، انہیں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انقلاب کے لیے اشتعال انگیزی کا مورود الزام ٹھہرایا ہے۔ گولن 1941 میں ترکی کے شمال مشرقی صوبے ارض روم کے ایک گاؤں كوروجک میں پیدا ہوئے۔
مغربی میڈیا میں گولن "ترکی کا خمینی" کے خطاب سے مشہور ہیں۔ اس کی وجہ بیرون ملک رہ کر ایردوآن کے نظام کے خلاف ان کی جنگ و جدل ہے جس طرح کہ خمینی نے فرانس میں رہ کر شاہ ایران کے نظام کے ساتھ کیا۔ انٹرنیٹ پر گولن کی شخصیت تلاش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور گوگل کے سرچ انجن پر تلاش کیے جانے والوں کی فہرست میں ان کا نام کافی اوپر ہے۔

تصوف کے متعلق گولن کی کتابوں کا 30 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ مختلف اسلامی امور کے بارے میں ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد 62 ہے۔ وہ ایک حنفی مبلغ اور اسلامی دانش ور ہیں جن کو عربی ، فارسی اور انگریزی پر بھی دسترس حاصل ہے۔ وہ ترکی میں شریعت کے نفاذ کی طرف مائل نہیں اور سیاست میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ یہ طرز فکر ایردوآن اور ان کے مرحوم استاد نجم الدین اربکان کی سوچ کے برعکس ہے۔ اربکان کو "سیاست میں اسلام کا باپ" کہا جاتا ہے جب کہ فتح اللہ گولن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ "معاشرت میں اسلام کے باپ" ہیں۔ وہ ایک "تحریک" کے بانی اور سربراہ ہیں جس کا کوئی نام نہیں۔ ترکی اور بیرون میں ان کے لاکھوں حامی موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر Herkul.org نامی ویب سائٹ کے ذریعے گولن اور ان کی تحریک کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ترکی کی جانب سے دہشت گرد شمار کی جانے والی اس تحریک کو "گولن تحریک" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کبھی اسے "خدمت تحریک" بھی بولا جاتا ہے۔ "العربیہ ڈاٹ نیٹ" کی تحقیق کے مطابق یہ ایک مذہبی تحریک ہے۔ اس تحریک کے زیرانتظام ترکی اور بیرون میں سیکڑوں اسکول ہیں۔ اس کے ساتھ وسطی ایشیا کی جمہوریتوں ، روس ، مراکش ، کینیا اور یوگنڈا میں بھی یہ تحریک سرگرم ہے۔ تحریک کے اپنے جریدے اور خصوصی ٹی وی چینل بھی ہیں۔
ان کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں تحریک کی اپنی تجارتی کمپنیاں، فلاحی و خیراتی ادارے اور خصوصی ثقافتی مراکز بھی ہیں۔ برطانیہ میں خاص طور پر اور یورپی یونین کے ممالک اور براعظم امریکا میں بھی عام طور سے تحریک کی سالانہ کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ تحریک دنیا کی مشہور جامعات کے ساتھ تعاون کر رہی ہے تاکہ ان پر زور دیا جا سکے کہ عالمی اثر پذیری کی حامل تحریک کے طور پر اس پر تحقیق کی جائے۔
گولن کے پرستاروں میں سعودی عرب کے معروف مبلغ اور مؤلف شیخ عائض القرنی بھی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کی 3 سال پرانی ایک وڈیو بھی ہے جس میں انہوں نے گولن کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کیے۔
فتح اللہ گولن بین المذاہب مکالمے کے حوالے سے انتہائی نرم انداز رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے مغربی دنیا میں ان کی "کشادگی اور فراخی" کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ تاہم ترکی میں ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان مشکلات کا آغاز 1999 میں ہوا جب انہوں نے ایک ٹی وی گفتگو میں ضمنی طور پر ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سرکاری استغاثہ نے ان کو تحقیق کے لیے طلب کر لیا جس پر اس وقت کے وزیراعظم بولنت اجاوید نے مداخلت کر کے معاملے کو ختم کروایا۔ انہوں نے گولن اور ان کے تعلیمی اداروں کا دفاع کیا۔ اس کے بعد فتح اللہ گولن نے ٹی وی گفتگو میں کہی جانے والی باتوں پر اعلانیہ معذرت بھی کی۔ بعد ازں گولن امریکا کوچ کر گئے اور وہاں قیام کر لیا۔
ایردوآن کے ساتھ ان کے مسائل میں اس وقت اضافہ ہوا جب 2013 میں ترک حکومت نے "گولن کی جماعت" کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کی ایک سلسلے کو بند کر دیا۔ ترکی میں ان اداروں کی (جن کی دنیا بھر میں تعداد 4000 سے زیادہ ہے) بندش کا جواز پیش کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا کہ "یہ امر ایک غیرقانونی نظام تعلیم کو ختم کرنے سے متعلق ہے جو صرف بڑے شہروں میں دولت مند خاندانوں کی اولادوں کو فائدہ دیتا ہے اور نئی نسل کو شدید مقابلے کے بیچ پیس رہا ہے"۔

اس برس کے وسط میں جلد ہی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ گولن کی جماعت کے ترجمان اخبار "زمان" نے ایردوآن کی حکومت کی مذمت کرنے والے مظاہرین کے موقف کی حمایت میں اداریے شائع کرنا شروع کردیے۔ ان ہی خطوط پر اس وقت کے صدر عبدللہ گل اور نائب وزیراعظم بولنت ارینچ نے جو دونوں گولن کے قریب تھے ، مصالحت پر زور دیا تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ترکی میں ایردوآن کے بارے میں گولن کے فکری اختلافات کا چرچا ہونے لگا۔ اگرچہ ایردوآن خود گولن کے ایک طالب علم تھے تاہم لگتا ایسا ہے کہ اقتدار کے ذائقے نے ان کو بدل دیا اور وہ "گولن کی جماعت" کو ریاست کے اندر ایک ریاست شمار کرنے لگے۔