اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن نے جنگ زدہ ملک میں بحران کے حل کے لیے نقشہ راہ (روڈ میپ) جمع کرانے کا عمل روک دیا ہے۔
کویت میں امن مذاکرات میں شریک یمنی حکومت کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ یہ تاخیر حوثیوں کے غیر لچک دار موقف کی وجہ سے کی گئی ہے اور اس سے مذاکرات ایک مرتبہ پھر وہیں چلے گئے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔
اس ذریعے کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کی جانب سے ان کے وفد کے سربراہ محمد عبدالسلام کی صعدہ سے واپسی کے بعد جاری کیا گیا بیان ان کے حقیقی موقف کی عکاسی کرتا ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک کی کوششوں کے باوجود امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
یمنی تنازعے کے دونوں فریقوں حوثی ملیشیا اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے وفد کو نقشہ راہ کی ایک ایک نقل مل چکی ہے اور انھوں نے اپنی قیادت سے اس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے یمن کے لیے خصوصی ایلچی شیخ اسماعیل ولد احمد نے سوموار کے روز کویت امن مذاکرات میں شریک وفود سے سکیورٹی اقدامات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا تھا۔انھوں نے دونوں فریقوں کو ایک تین نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا۔اس میں یمن میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کے خدوخال بیان کیے گئے ہیں۔
اس تجویز کا پہلا حصہ ابتدائی طریق کار سے متعلق ہے۔ اس میں سب سے اہم فروری 2015ء کے بعد حوثی ملیشیا کی جانب سے جاری کردہ آئینی اعلامیوں کو کالعدم قراردینا اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں میں رونما ہونے والی کسی تبدیلی کو ختم کرنا ہے۔
اس کا دوسرا حصہ بین الاقوامی حمایت یافتہ ایک فوجی کونسل کی تشکیل ہے۔یہ ان فوجی لیڈروں پر مشتمل ہوگی جو کسی بھی طرح جنگ میں شریک نہیں رہے ہیں۔اس کے تحت دارالحکومت صنعا اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل ایریا اے سے حوثی فورسز کا انخلاء ہوگا اور دو ماہ کے اندر حکومت صنعا میں واپس آجائے گی۔
اس معاہدے کی شرائط کے مطابق حوثی ملیشیا جب صنعا کو خالی کردے گی اور اپنے ہتھیار بھی حوالے کردے گی تو پھر قومی اتحاد کی ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔یہ حکومت عام معافی کا اعلان کرے گی اور مصالحت کا عمل شروع کرے گی۔اس کے تیسرے حصے کے تحت دوسال کا عبوری دور ہو گا اور اس دوران میں ملک میں سیاسی عمل بحال کیا جائے گا۔