عادل فراز

برسوں کا انتظار ختم ہوا۔بالآخر وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھدیا۔رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے مینی فیسٹو کا اہم حصہ تھا اور بی جے پی ہمیشہ رام مندر قضیہ کو بنیاد بناکر ہی اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو کرتی رہی ہے ۔سالہا سال کے طویل انتظار کے بعد۲۰۱۴ ؁ء میںبی جے پی نمایاں اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اس نے رام مندر کی تعمیر کی راہ میں موجود تمام تر رکاوٹوں کو ختم کردیا۔اس کا سہرا وزیر اعظم نریندرمودی کے سر بند ھ رہاہے کیونکہ انہوں نے خاموشی کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کیا ۔لیکن اس تمام جدوجہد کے پیچھے آرایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں کا کردار رہاہے ۔ویشوو ہندوپریشد جیسی شدت پسند تنظیموں نے رام چندر جی کا جو کردار ہندوستانی عوام ہی نہیں پوری دنیاکے سامنے پیش کیا وہ ’بھگوان رام‘ کے کردار سے بالکل الگ تھا ۔مگر ہندوشدت پسند تنظیمیں اور ان کے حلقۂ ارادت سے وابستہ تمام تر ہندو یہی سمجھتے رہے کہ اب تک ہمیں بھگوان رام کا حقیقی روپ نہیں دکھایا گیا تھا ۔پہلی بار آرایس ایس اورویشووہندو پریشد جیسی تنظیموں نے بھگوان رام کا حقیقی کردار ان کے سامنے پیش کیا ۔رام چندر جی کا ایسا چہرہ جو دراصل مسلم مخالف اور عدالت و انصاف کے منافی تھا۔جبکہ راجہ رام چندر جی کا تاریخی روپ جو اب تک ہمارے سامنے تھا وہ بالکل الگ تھا ۔بھگوان رام کے اس بدلے ہوئے روپ نے پورے ہندوستان کا روپ بدل ڈالا ۔سماجی اقدار میں برقی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور سیاسی کینوس پر نفرت اور ناانصافی کے رنگ بکھرنے لگے ۔

ہندو شدت پسند تنظیموں کا اصلی ہدف رام مندر کی تعمیر نہیں ہے۔ان کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرکےہندوستان پر راج کرناہے ۔اگر مسلمان رام مندر کی تعمیر کا مخالف ہوتا تو وہ کبھی عدالت کے غیر منصفانہ فیصلے کو تسلیم نہ کرتا ۔آرایس ایس نے ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے ہمیشہ انہیں ایک ’بھیڑیے ‘ کا خوف دلایاہے ۔ٹھیک اسی طرح جیسے چرواہا اپنی بھیڑوں کو گلّے میں رکھنے کے لئے ’بھیڑیے‘ کا خوف دلاتا رہتاہے ۔آرایس ایس نے مسلمانوں کو ایک خطرناک ’بھیڑے ‘ کے طورپر ہندوئوں کے سامنے پیش کیاہے تاکہ ہندوئوں کو متحد کرکے ان پر حکومت کی جاسکے ۔جبکہ ہندو یہ سمجھنے سے قاصر رہاہے کہ اگر مسلمانو ںکا مقصد ہندوستان سے ہندوئوں کا صفایا کرنا ہوتا تو یہ کام بہت پہلے مکمل ہوچکا ہوتا ۔ہندوستان پر ایک زمانے تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے مگر انہوں نے کبھی جبر اور ظلم کے ذریعہ ہندوئوں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی۔اگر کسی بادشاہ نے ہندوئوں کے مندر توڑنے کی کوشش کی ہے تو تمام مسلمانوں نے اس بادشاہ کو ظالم قراردیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے ۔مگر اکثرمسلمان بادشاہوں کا رویہ ہندوئوں کے تئیں دوستانہ رہاہے ۔اکبر جیسا بادشاہ سیکولر ازم کے راستے پر چلتے ہوئے ہندوئوں کو اپنی ریاست میں مسلمانوں کے برابر حقوق دیتاہے ،مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کے اکثر شدت پسند ہندوئوں کو تاریخ کا حقیقی علم ہی نہیں ہے ۔انہیں ایک من گھڑنت تاریخ دیدی گئی ہے جسمیں مسلمانوں کو ان کا دشمن اور غداروطن بناکر پیش کیا گیاہے ۔آرایس ایس نے تاریخ میں تدلیس اور حقائق کو مسخ کرنے کا کام بہت پہلے شروع کردیاتھا مگر مسلمان اس گھنائونی حرکت سے بے خبر تھا یا اس نے اس طرف توجہ نہیں دی ۔اس کا نقصان یہ ہواکہ آج مسلمانوں کی ایک جماعت کوبھی صحیح تاریخ کا علم نہیں ہے ۔چونکہ فلموں،ڈراموں اور دیگر ذرائع سے جو تاریخ ان تک پہونچ رہی ہے وہ مسخ شدہ ہے ۔خاص طورپر ۱۹۹۰ ؁ء کے بعد ایسی فلمیں منظر عام پر آنے لگیں جس میں مسلمانوں کو’ویلین ‘ اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کیا جانے لگا ۔بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسی فلموں اور ڈراموں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جس میں مسخ شدہ تاریخ کو مسلمانوں کے خلاف پیش کیا گیا ۔فلم ’کیسری‘،’ پدماوت‘،’بٹلہ ہائوس‘،’ تھانا جی ‘، جیسی درجنوں ایسی فلمیں ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کو غدار،وطن دشمن ،درانداز اوردہشت گرد بناکر پیش کرناہے ۔مسلمانوں سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کبھی ایسی فلموں اور لٹریچر کے خلاف آواز بلند نہیں کی ۔اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو تاریخ بینی کی طرف مائل نہیں کیا تاکہ وہ اس سازش کا شکار ہونے سےمحفوظ رہیں۔مسلمانوں کے بچے اسکولی نصاب میں آرایس ایس کا گھولا ہوا زہر شوق سے پیتے رہے اور ہم اس زہر کا تریاق ابھی تک تلاش نہیں کرسکے ۔ہمارے مدرسوں میں تاریخ مضمون کی حیثیت سے نہیں پڑھائی جاتی ۔جن مدارس میں تاریخ کا درس ہوتاہے اس کا تعلق خالص مذہبی تاریخ سے ہے جس کا موجودہ سماجی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا-

ندوئوں نے اس حقیقت کو ابھی تک نہیں سمجھاہے کہ مسلمان کبھی رام مندر تعمیر کا مخالف نہیں تھا ۔چند سیاسی مولوی حضرات اورنیم مذہبی تنظیمیں ان کی پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرتیں۔مسلمان بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر نہیں چاہتا تھا ۔اب جبکہ اس مسئلہ کا عدالتی حل سامنے آچکاہے مسلمان نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی ۔مزاحمت کرنے والی تنظیمیں اور مولوی صاحبان کا مقصدخالص سیاسی ہے ۔انہہوں نے نا کبھی مسلمانوں کے مسائل کو سمجھاہے اورنہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدالت کا فیصلہ چیخ چیخ کر کہہ رہاہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر ناانصافی کی گئی اور بابری مسجد کی زمین کو ’آستھا ‘ کے نام پر ہندوئوں کے حوالے کردیا گیا۔اگر عدالتوں کے فیصلے کی بنیاد ’آستھا ‘ پر ہو نے لگے تو سمجھ جائیے عدالتیں سیاسی دبائو میں ہیں اور ان کے پیش نظر ’آئین ‘ کے بجائے کسی ایک فریق کی ’آستھا‘ ہے ۔جسٹس گوگوئی کا ریٹائرمینٹ کے فوراََ بعد بی جے پی کی نمائندگی کرتے ہوئے راجیہ سبھا کا حلف لینا اس دعوے کی واضح دلیل ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ سیاسی دبائو میں دیا گیا فیصلہ ہے ۔اس فیصلے کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ ضرور صاف ہوگیا مگرتمام تر ہندو تنظیموں اور برادران وطن کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ اس حقیقت کو جانتاہے کہ رام مندر کا سنگ بنیاد ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہے ۔چونکہ مسلمان برسوں پرانےاس تنازعہ کو ختم کرنا چاہتا تھا لہذا عدالت کا فیصلہ سماجی اور سیاسی مصلحت کے پیش نظر قبول کرلیا گیا ۔کیونکہ مسجد اور مندر کے نام پر انسانیت کا خون بہہ جائے یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھاکہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کے شواہد موجود نہیں ہیں ،لہذا مسلمان کبھی بابری مسجد کی شہادت کے واقعہ کو فراموش نہیں کرسکتےاور وہ اپنی آنے والی نسل کو بھی یہ حقیقت بتاکر جائیں گے کہ رام مندر بابری مسجد کی زمین پرتعمیر کیاگیاہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے دیے گئے فیصلے کے ساتھ ہی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث مجرموں کوسزا بھی سنائی جاتی ،تاکہ ہندوستان کی عوام کو یہ حقیقت معلوم ہوجاتی کہ مسجد کی شہادت ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی اور اس کے مجرموں کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی ہے ۔مگر اب تک مسجد کی شہادت کے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں ،اس سے عدالتوں کی جانبداری اور سیاسی دبائو کی حقیقت کھل جاتی ہے ۔


اب جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نےبابری مسجد کی آراضی پر رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھدیاہے اور پورا ہندو سماج یہ سمجھ رہاہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو شکست فاش دیدی ہے۔ ۵ اگست کو ہر سڑک اور چوراہے پر جشن کا ماحول تھا ۔ظاہر ہے رام مندر کی تعمیر ہندوئوں کا دیرینہ خواب تھا جو اب شرمندۂ تعبیر ہواہے لہذا جشن منانا تو ایک فطری عمل تھا ۔مگر زیادہ تر مقامات پر یہ جشن مسلمانوں کو چڑہانے اور انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے منایاجارہاتھا۔مسلمان بابری مسجد کی زمین کو عدالت کے ذریعہ سلب کئے جانے پر بھی خاموش تھا اور سنگ بنیاد کے موقع پر منائے جارہے جشن پر بھی اس نے کوئی ردعمل نہیں دیا ۔ان کے مولویوں اور مذہبی تنظیموں نے انہیں اس قدر بزدل اور مصلحت کوش بنادیاہے کہ اب وہ اپنی حق تلفی اور سلب اختیارات پر بھی خاموش تماشائی بنےرہتےہیں اور مزاحمت تک نہیں کرتے ۔مستقبل  قریب میں بھی کوئی ایسا قائدنظر نہیں آتاہے جو انہیں اس بزدلانہ اور مصلحت پسندانہ صورتحال سے باہر نکال سکے۔