ایران کے دو سرکردہ قدامت پرست رہ نما آیت اللہ محمد یزدی اور محمد تقی مصباح یزدی مجلسِ خبرگان (ماہرین کی اسمبلی) میں اپنی نشستیں دوبارہ جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔
اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی حمایت میں قائم اصلاح پسندوں کے اتحاد نے مجلس خبرگان کے سبکدوش ہونے والے چئیرمین آیت اللہ محمد یزدی اور اصلاح پسندوں کے شدید مخالف مصباح یزدی کے خلاف مہم چلائی تھی اور وہ دونوں ہی انتخاب ہار گئے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کی اطلاع کے مطابق ایک تیسرے سرکردہ قدامت پسند عالم احمد جنتی مجلس خبرگان میں منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ایران میں مجلس شوریٰ (پارلیمان) کی 290 نشستوں اور مجلس خبرگان کی 88 نشستوں پر انتخاب کے لیے گذشتہ جمعے کے روز ووٹ ڈالے گئے تھے۔
ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے سوموار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی ہے اور ملک بھر میں ووٹ ڈالنے کی شرح 62 فی صد رہی ہے۔البتہ دارالحکومت تہران میں ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فی صد رہی ہے۔
احمد جنتی شورائے نگہبان کے سربراہ ہیں۔وہ بمشکل ہی جیت پائے ہیں اور تہران کی سولہ نشستوں پر انتخاب لڑنے والے کامیاب امیدواروں میں وہ سب سے آخری نمبر پر رہے ہیں۔اب شورائے نگہبان پارلیمان اور مجلس خبرگان کے انتخابات کی توثیق کرے گی اور اس عمل میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔
صدر حسن روحانی تہران میں مجلس خبرگان کے انتخاب میں کامیاب امیدواروں میں تیسرے نمبر پر رہے ہیں جبکہ ان کے اتحادی سابق صدر آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی پہلے نمبر پر رہے ہیں۔مجلس خبرگان کے اس انتخاب کو اس لیے بھی اہمیت دی جارہی تھی کیونکہ یہی مجلس ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتقال کی صورت میں ان کے جانشین کا انتخاب کرے گی۔
قدامت پسندوں نے مجلس خبرگان کے انتخاب میں شکست کے بعد بیرونی مداخلت کا الزام عاید کیا ہے اور بعض نے صدر روحانی اور ہاشمی رفسنجانی پر الزام عاید کیا ہے کہ انھوں نے ایک برطانوی لسٹ وضع کی تھی۔
آیت اللہ یزدی اور مصباح یزدی کی اتوار کو شکست واضح ہوچکی تھی اور انتخابی نتائج منظرعام پر آنے کے بعد ایرانی عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ صادق لاریجانی نے بھی مذکورہ الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اصلاح پسند امریکی اور انگلش میڈیا ذرائع کے ساتھ مل کر انتخابات کے دوران کام کرتے رہے تھے”۔
انھوں نے سوال کیا ہے کہ کیا غیر ملکیوں کے ساتھ اس طرح کی رابطہ کاری کے ذریعے ان شخصیات کو رجیم کے مفاد میں مجلس خبرگان سے باہر نہیں کیا گیا ہے؟
صدر حسن روحانی کی حکومت ان الزامات کو انتخابی مہم کے دوران ہی مسترد کرچکی ہے۔ایران کے نائب صدر اور حکومت کے ترجمان محمد باقر نوبخت نے کہا ہے کہ ”ہمارے پاس برطانوی لسٹ کی طرح کی کوئی چیز نہیں تھی،اگر کوئی یہ کہنا چاہتا ہے کہ ایسی کوئی فہرست موجود ہے تو وہ دراصل شورائے نگہبان ہی کی توہین کررہا ہے”۔
واضح رہے کہ قدامت پسندوں کی بالادستی کی حامل شورائے نگہبان ہی نے پارلیمان اور مجلس خبرگان کا انتخاب لڑنے والے امیداروں کی منظوری دی تھی اور اس نے صدر حسن روحانی کے حامیوں کا راستہ روکنے کے لیے ہزاروں اعتدال پسند امیدواروں کو انتخاب لڑنے کا نااہل قرار دے دیا تھا مگر اس کے باوجود ان کے حامی پارلیمان میں واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔