شاہد کمال (لکھنؤ)

اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ اردوزبان کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔عوامی سطح پراس زبان کے فروغ کے لئے جو بنیادی کام ہونا چاہئے۔اس کا کوئی قوی امکان تو نہیں دکھائی دیتا ۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اخبارات کی سرخیوں اور اشتہارات کے نشیب اندام سے پیدا ہونے والے چنددانشوروں نے اپنے فرضی پروپگنڈوں سے اردو کے ایسے قلعہ معلی کی تعمیر کی ہے ،جس کے بکھرتے ہوئے شیرازے کی زمام اردو کے ایک نئے بہادر شاہ ظفر کے ہاتھوں میں دیدی ہے۔اور اردو سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی مفتوحہ ملکیت میں شامل کردیا گیا ہے۔جن پر ذہنی تصرف وتجاوز کے تمام جواز فراہم کردیئے گئے ہیں۔اردو زبان وادب کایہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نئے بحران کو جنم دے رہا ہے۔جس کا تدارک کرنے والے حضرات بھی اپنی اپنی مصلحتوں کے ترجیحاتی خیام گاہوں میں اپنی خاموشیوں کے ساتھ فروکش ہوچکے ہیں۔یہ کہاں تک درست ہے ہم اس کے بارے میںکچھ نہیںکہہ سکتے۔

لیکن ایک بات ضرور ہے کہ موجودہ عہد میں ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں سرکاری کفالت میں اردو کے نام پر چلائی جانے والی اکادمیوں کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے ۔جن کے پاس نا تو اپنا کوئی عملی منشور ہے اور نہ ہی اپنا کوئی ذاتی وژن ۔محض ایک ایسا خالی دماغ ہے ،جن میں عدم بصیرت کی ایک ایسی ہَوا بھری ہوئی ہے۔جو انھیں زمینی حقائق سے روبرو ہونے کا موقع ہی نہیں دیتی۔جس کی وجہ سے تمام امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔یہ صورت اسوقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارے ادبی سماج کے اہل قلم حضرات کی سورج دماغیاں زمانے کی مادرزاد سچائیوں کو کانوں سے دیکھنے اور آنکھوں سے سننے کی عادی ہوجاتی ہیں۔اسی موقع کا فائدہ اٹھانے کے لئے ادبی گماشتے اردوزبان کے ہر اداروں اور رسالوں پر بے دریغ شب خون مارنے لگتے ہیں۔اردوزبان کے اداروں اور اکادمیوں کے اعلیٰ منصب پر فائز لوگ بھی بغیر کسی مزاحمت کے ایسے لوگوں کی تلون مزاجی کے آگے بڑی آسانی سپرانداز ہوجاتے ہیں۔پھر اس کے بعد ایک نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔

لیکن ان سرکاری اکادمیوں کی پول اسوقت کھلتی ہے، جب اردو کے نام پرتقسیم کئے جانے والے سالانہ انعامات کی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ اردواکادمی( لکھنؤ ) کی جانب سے ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۸ کے انعام یافتگان کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔’’ذکیہ مشہدی کو مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ ،مجموعی ادبی خدمات کے لئے ۔ایک لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔شاعری کے لئے ظفر اقبال(فتح پور) فکشن کے لئے غضنفر (علی گڑھ) الیاس اعظمی (اعظم گڑھ) کو ان کی ادبی تحقیق کے لئے ’’مسعود حسن رضوی ‘‘انعام سے سرفراز کیا گیا۔پروفیسر شفیق اشرفی کو برائے تنقید’’احتشام حسین ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔سائنس ، ترجمہ نگاری اور دیگر ادبی زمراجات کے لئے ،ڈاکٹرشمیم احمد صدیقی کے نام کا انتخاب کیا گیا۔ اردو زبان وادب کے فروغ اوراس کی تحریک کے لئے اطہر نبی کو ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق ‘‘ ایوارڈدینے کا اعلان کیا گیا۔’’اطفال ادب‘‘ کے لئے عاکف سنبھلی (دہلی)کو منتخب کیا گیا۔ڈاکٹر صغریٰ مہدی کے نام سے موسوم برائے قومی یکجہتی ایوارڈ کے لئے مولانا عبد الباطن نعمانی(بنارس) کا انتخاب کیا گیا۔اردو اکادمی کی موجودہ چیئر پرسن پروفیسر آصفہ زمانی(ایکزکیٹو کو برائے خواتین کے اعلیٰ اعزاز کے لئے منتخب کیا گیا۔اس اعزاز کی رقم ایک لاکھ پر مشتمل ہے۔پروفیسر عباس رضا نیر (اردو اکامی کے ایکزکیٹو ممبر)کو ’’امیر خسرو ایوارڈ‘‘(ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ)پروفیسر آفتاب احمد آفاقی (ایکزکیٹو ممبر)برائے تدریس ’’پروفیسر محمد حسن ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔احمد ابراہیم علوی (لکھنؤ) کو ’’پریم چند ایوارڈ(ایک لاکھ روپیہ)کے لئے منتخب کیا گیا۔صحافت پرنٹ میڈیا کے لئے جیلانی خاں(لکھنؤ) الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ کے لئے ترنم علی (نوئیڈا)کو (پچاس پچاس ہزار روپئے)کے لئے منتخب کیا گیا۔نواجوان صحافی ایوارڈ کے لئے پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے ڈاکٹر سلمان راغب(بنارس) اور زبیر شاد کو (پچیس پچیس ہزار روپئے) کے لئے منتخب کیا گیا۔فن خطاطی کے لئے (پچیس ہزار ) سراج الحق (علی گڑھ) کو انعام سے نوازا گیا ۔’’منشی نول کشور ‘‘ایورڈبرائے طباعت ،ایم ۔آر پبلکیشنز (دہلی) کا انتخاب کیا گیا۔

اردواکادمی (لکھنؤ) کی طرف سے کتابوں کے لئے دیئے جانے والے انعامات زمرہ جاتی تقسیم بندی چار حصوں میں کی گئی ہے۔ ،پچیس ہزار روپئے کے پندرہ انعامات،بیس ہزار وپئے کے لئے بیس انعامات کی تخصیص،پندرہ ہزار روپئے کے لئے پچیس کتابوں کا انتخاب اور ، دس۔دس ہزار روپئے کے ایک سو سولہ انعامات تقسیم کئے گئے۔

اردو اکادمی کی جانب سے دیئے جانے والے انعامات کی یہ مذکورہ فہرست ہے۔آپ اس فہرست کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور آپ کی اپنی ذاتی رائے کیا ہے،وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ایکزکیٹو ممبران کی طرف سے کسی شخص کو انعام کے لئے نامز د کرنے کے کیا شرائط و قواعد ہیں اور اس کے لئے کن ضابطہ انتخاب کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ تو وہی لوگ بہتر جانتے ہیں۔ جو اس کے جیوری پینل میں شامل ہیں۔لیکن اس پورے نظام انتخاب کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان ضرور پیدا ہوتا ہے۔جب کمیٹی کے ایکزکیٹو ممبران اتنے کشادہ دست اور وسیع القلب افراد ہوں کہ وہ اپنے پسند کے انعام اپنے لئے خود تفویض کرنے لگیں تو اس میں شفافیت کی کہاں سے گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ کیا آپ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ اردو اکادمی کی موجودہ چیر پرسن نے خود کو ہی اپنی اکادمی کے اعلیٰ اعزاز سے سرفراز کرلیا۔اور ایکزکیٹو کمیٹی میں شامل ممبران نے آپسی اتحاد واخوت کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ جس کی نظیر ہمارے سماج میں تو قطعی نہیں ملتی۔کاش امت مسلمہ ان ایکزکیٹو ممبران سے ہی اخوت و بھاچارگی اور آپسی اتحاد کا سبق حاصل کرلیتی تو آج دنیا میں انھیں اتنی ذلت و رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔سوشل میڈیا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اکادمی کی جانب سے تقسیم ہونے والے انعامات کی شفافیت پر سرکار نے سوال اٹھا دیا۔ہوسکتا ہے ایک دو دن میں ایوارڈ واپسی کی رسم ادائیگی بھی شروع ہوجائے۔لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی،اگر ادارہ کی طرف سے یہ غلطی ہوئی ہے تو ایکزکیٹو کمیٹی فوری طور سے تحلیل کی جائے اور ایسے لوگوں کو دوبارہ اس کمیٹی میں شامل نہ کیاجائے،اور اکادمی کے بڑے منصب پر فائز ہونے والے جن افراد نے خود کو اکادمی کے اعلیٰ اعزاز سے سرفراز کیا ہے، ان کے خلاف کاروائی ہونے چاہئے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔غالب کے اس شعر پر اپنی گفتگو کا اختتام کرنا چاہتا ہوں۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے