نئی دہلی : آج آسام شہریت کے تعلق سے دوالگ الگ معاملہ کی سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف نریمن کی دورکنی بینچ میں جب سماعت کا آغاز ہوا تو جمعیۃعلماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید اور وکیل آن ریکارڈ فضل ایوبی پیروی کے لئے پیش ہوئے واضح ہوکہ 23/جولائی کے آڈر میں اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلاکی رپورٹ کی بنیادپر کورٹ نے تمام فریقوں سے دوباتوں پر وضاحت مانگی تھی نمبر 1 این آرسی کے کسی فریق کے والدین میں سے کوئی فارنرہوتو کیا اس کی اولاد ہندستانی مانی جائے گی جبکہ اس کی پیدائش 2004تک ہوئی ہو؟، نمبر2 یہ کہ جن لوگوں کو سابقہ قانون آئی این ڈی پی میں ہندوستانی شہری ڈکلیئر کیا گیا تھا ان آڈر اب ان کی حیثیت کیا ہوگی کیونکہ این ارسی کے نافذ ہونے کہ بعدآئی این ڈی پی قانون ختم ہوچکاہے، اس کے جواب کے لئے جمعیۃعلماء ہند اور آمسو کی طرف سے مذکورہ بالاوکلاء پیش ہوئے، اورکورٹ سے کہا کہ سیٹیزن شپ ایکٹ 3کے اعتبار سے جو التزام ہے اس کو این آرسی کے سلسلہ میں پوری طرح سے لاگوکرنا چاہئے این آرسی کے لئے جو رول بنائے گئے ہیں وہ سٹیزن شپ ایکٹ کے سکشن 3کو پامال نہیں کرسکتے ہیں جو شخص کسی بھی قانونی پہلوسے ہندوستانی شہری پایا جاتاہے اس کو ضروربالضروراین آرسی میں جگہ دی جائے، این آرسی کے رول کی وجہ سے کسی بھی شہری کو شہریت سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔

دوسرے نکتہ پر گوہاٹی ہائی کورٹ کے فل بینچ کے آڈر (انورحسین بنام اسٹیٹ آف آسام)میں اس کی وضاحت موجودہے اسی فیصلہ کے تحت این آرسی میں آگے بڑھ نا چاہئے،اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو اگر آئی این ڈی پی کے تحت ہندوستانی مان لیا جاتاہے تو اس آڈرکومانا جائے گا، حالانکہ اسٹیٹ حکومت کو یہ اختیارہوگا کہ اس آڈرکوہائی کورٹ میں چیلنچ کرسکتی ہے مگر جن آڈرکو چیلنچ نہیں کیا گیا ہے ان لوگوں سے متعلق کوئی شک نہیں ہونا چاہئے اوراس کواین آرسی میں شامل کرلینا چاہئے اس بحث کو سننے کے بعد کورٹ نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلا سے کہا کہ اس سلسلہ میں جلد ازجلد کورٹ کے سامنے وہ تحریری طورپر اپنی جواب پیش کریں،عدالت اب ان کے جواب کی روشنی میں آئندہ منگل کے روز اپنا فیصلہ دیے گی۔

اسی دورکنی بینچ کے سامنے جمعیۃعلماء ہند اورآمسواور کانگریس پارٹی کے 7ایم ایل اے کی طرف سے سپریم کورٹ میں آج صبح ایک درخواست پیش کی گئی تھی اور آج ہی اس پر بحث ہوئی، معاملہ یہ تھا کہ پچھلے تین چاردنوں سے ایک خاص علاقہ کے پچیس سے تیس ہزارلوگوں کو نوٹس جاری کی گئی ہے جن کا نام این آرسی میں پہلے آچکاہے، ان سے یہ کہا گیا ہے کہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندرفلاں فلاں جگہ پر پہنچ کرجو ان کی رہائش گاہ سے دوسو،تین سو، چارسوکلومیٹر کے فاصلہ پر ہیں اپنے اوراپنے اہل وعیال کے کاغذات کو دوبارہ چیک کرائیں، حالانکہ پچھلی 23 جولائی کی پیشی میں کورٹ نے جمعیۃکی یہ بات تسلیم کرلی تھی کہ جن لوگوں کا این آرسی میں نام آچکاہے ان کی دوبارہ تصدیق نہیں ہوگی اس کے باوجود اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلانے نوٹس جاری کردیا اس پر کورٹ نے پرتیک ہزیلاسے کہا کہ اس میں رعایت کا معاملہ کریں لوگوں کو بے جازحمت نہ ہواس ہدایت کو ہزیلانے تسلیم کیا اور کہا کہ صرف یہ ایک علاقہ سوائی گاوں اورضلع کامروپ کے تقریبا تیس ہزارافراد کو نوٹس جاری کی گئی ہے مگر ہم ان کے ساتھ جو قانونارعایت ہوسکے گی کریں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں این آرسی کے رول کے تحت این آرسی میں شامل افرادکو فہرست شائع کرنے سے پہلے مخصوص حالات میں دوبارہ چیک کرنے کا اختیارحاصل ہے، انہوں نے کہا کہ 26/جون کو ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جو این آرسی میں شامل تھے ان کو ہٹایا گیا تھا یہ تمام افراد ان ہی سے متعلق ہیں جنہیں نوٹس جاری کی گئی ہے۔جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہمارے وکلاء کی محنت بارآور ثابت ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ اس حساس مسئلہ پر عدالت کی طرف سے مسلسل نرمی کا اظہارہورہا ہے مگر افسوس ناک بہلو یہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں آئے دن کوئی نہ کوئی نئی اڑچن پیداکرکے سب کو تشویش میں مبتلاکردیتے ہیں حالانکہ اس سے قبل عدالت کہہ چکی ہے کہ دوبارہ تصدیق کی ضرورت نہیں ہے اور خوداسٹیٹ کوآڈینیٹر عدالت کے سامنے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آبجکشن اور کلیم کے عمل سے ازخوددوبارہ تصدیق کی کارروائی مکمل ہوچکی ہے اس لئے اب نئے سرے سے دوبارہ تصدیق کی ضرورت نہیں ہے مگر اس کے باوجود دوبارہ تصدیق کی نوٹس جاری کردی گئی جس کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کو دوبارہ عدالت کا رخ کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ امید ہے آئندہ منگل کو اس معاملہ میں عدالت کا فیصلہ متاثرین کے وسیع ترمفادمیں ہوگا۔