مسیحا اردو سوسائٹی کے زیر اہتمام ’رام لعل حیات وفکروفن‘پر سمینار منعقد

لکھنؤ: رام لعل نے افسانوں کے علاوہ ناول بھی لکھے اور سفر نامے بھی،تنقیدی مضامین لکھے، اورخاکے بھی،ریڈیو ڈرامے بھی لکھے اورادبی وذاتی ڈائری بھی،رام لعل نے جو کچھ بھی لکھا وہ ذاتی تسکین یاادب برائے کے نظریے کے تحت نہیں بلکہ اپنے ملک کی عوام کیلئے لکھا۔مذکورہ خیالات کا اظہاررام لعل کے بیٹے اور مہمان خصوصی ونودچھابڑا نے مسیحا اردو سوسائٹی کے زیر اہتمام و اتر پردیش اردو اکادمی کے اشتراک سے منعقد سمینار ’’رام لعل حیات وفکروفن‘‘ بمقام اسلامیہ کالج میں کیا۔

احمد ابراہیم علوی نے سمینارکی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ رام لعل ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ رہے۔جدیدیتی میلان سے بھی متاثر رہے لیکن بے معنویت کی طرف کبھی گامزن نہیں ہوئے۔ان کی ساری تخلیقات برصغیر کے رہنے بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگی اور ان کے تجرباتِ زندگی سے مملو ہونے کے باعث اپنی گہری معنویت رکھتی ہیں۔

سمینار میں استقبالیہ کلمات ڈاکٹر مسیح الدین خان کنوینر سمینارنے اداکئے اور تمام مہمانان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پروگرام کی کامیابی کیلئے تمام مہمانوں اور سامعین کا والہانہ استقبال کیا۔ سمینار کی کامیاب نظامت اپنے مخصوص انداز میں صحافی غفران نسیم نے کی۔سمینارکاآغازقاری محمودالحسن کی تلاوت کلام سے ہوااس کے بعد نذرانہ عقیدت نعت ومنقبت عبدالنعیم قریشی نے پیش کی۔مہمانوں کا گلدستوں سے استقبال ضیاء اللہ صدیقی ندوی، ڈاکٹرارشاد بیاوری،ڈاکٹر سید محمدصبیح،سلمہ وغیرہ نے کی آخر میں اختتامی کلمات سوسائٹی کی سیکریٹری عین النساء نے اداکئے۔

رام لعل کی کہانی’’جلن‘ مغربی پنچایت کی ایک خاص تہذیب کی عکاسی ہے جس میں نچلے متوسط مسلم معاشرے میں شادی اور لڑکیوں کی آپس میں چھیڑ چھاڑ اور حسد کی ایک دھیمی آنچ ملتی ہے۔ان کی دیگر کہانیوں میں جو اس مجموعے میں شامل ہیں جیسے’’ بے روزگاری‘‘۔’’مفلسی‘‘ میں سماجی سطح پر نابرابری اور جنسی آسودگی کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔

مہمانان گرامی اورمقررین کی حیثیت سے سید اطہر نبی،پروفیسرعارف ایوبی( چیرمین فخرالدین علی احمدکمیٹی) ،ڈاکٹرانیس انصاری(سابق وائس چانسلر اردو اعربی فارسی یونیورسٹی) پروفیسر آصف نعیم(علیگڑھ ومسلم یونیورسٹی)،صہبا علی، شکیل احمد خان سابق ریاستی وزیر، نکنج مصرا،سہیل کاکوری پرویز ملک زادہ وغیرہ نے شرکت کی اوراظہار خیال فرماتے ہوئے کہاکہ رام لعل کا شمار اردوادب کے مقبول عام افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔اس ضمن میں وہ کرشن چندر اور اے حمید کی صف کے ادیب ہیں ۔رام لعل نے اپنا پہلاافسانہ1943میں ’’تھوک‘‘ لکھا۔ان کے بیشتر افسانے مارکسی فکرو فلسفے سے متاثر ومملو نظرآتے ہیں۔

پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر مسیح الدین خان نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے سوسائٹی کے اغراض ومقاصد کے بارے میں بتایا۔بعد میں تلاوت کلام پاک سے سمینارکا باقاعدہ آغاز ہوااور نعت کا نذرانہ پیش کیاگیا۔ اس موقع پر مختلف میدانوں میں خدمات دینے والی چاراہم شخصیات کو ایوارڈ واعزازسے نوازا گیا جن میں (۱) ڈاکٹر عمار نگرامی(۲)ڈاکٹر احتشام احمد خان(۳)مسعود جیلانی(۴)روہت کمار میت شامل ہیں۔یہ اعزاز وایوارڈ شال، سند اور مومینٹو پر مشتمل تھا۔

مقالہ وخیالات پیش کرنے والوں میں پرویز ملک زادہ،ڈاکٹر مامون رشید (علیگڑھ مسلم یونیورسٹی)ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر جانثار عالم،غفران نسیم،ڈاکٹر سیما صدیقی،صحافی ضیاء اللہ صدیقی،ڈاکٹر گلزار حسن(ساگر یونیورسٹی مدھیہ پردیش)ڈاکٹرارشاد بیاوری شامل ہیں دیگر اہم شرکاء میںایس،این لال نثار احمد،ڈاکٹر لیاقت حسین،خالد اعظمی،عبدالنعیم قریشی،ڈاکٹرسید محمدصبیح ندوی، ڈاکٹرعصمت پروین، یونس سلیم،عبدالکریم ندوی،اورمحمد حامد وغیرہ تھے۔