یوپی اردو اکادمی و نجب النساء میموریل ٹرسٹ کے اشتراک سے ’جمیل مہدی؛ شخصیت اور صحافتی خدمات‘ پر قومی سیمینار

لکھنؤ :جمیل مہدی محض ایک صحافی ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک دانشور اور دور اندیش قائد بھی تھے۔ آج ہمیں دور دور تک جمیل مہدی کے پائے کا کوئی ایسا صحافی نظر نہیں آتا جس کی نگاہ اتنی دور بیں اور جو حالات کی نبض پر اتنی مضبوط گرفت رکھتا ہو۔

ان خیالات کا اظہار یہاں معروف صحافی اور راجیہ سبھا کی میڈیا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن معصوم مرادآبادی نے اترپردیش اردو اکادمی کے مالی اشتراک سے نجب النساء میموریل ٹرسٹ کے تحت ’’جمیل مہدی: شخصیت اور صحافتی خدمات‘‘ عنوان پر یوپی پریس کلب لکھنؤ میںمنعقد قومی سیمنار میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ جمیل مہدی نے محض حالات کی ستم ظریفی کا ماتم ہی نہیں کیا نہ ہی مظلوم ملت کی بے بسی و بے کسی پر سینہ کوبی کی بلکہ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ملت کو راہ دکھانے کی کوشش کی اور یہ بھی چاہا کہ مسلمان حالات کے جبر سے باہر نکلیں اور اپنے مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی کریں۔

سیمینار کی صدارت ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کی جبکہ بطور مہمان خصوصی معصوم مرادآبادی نے شرکت کی۔ کلیدی خطبہ معروف صحافی عالم نقوی نے پیش کیا اور بطور مہمانان اعزازی ممبر اسمبلی عالم بدیع اعظمی، حکیم وسیم احمد اعظمی و جامعہ ملیہ اسلامیہ کی استاد محترمہ رخشندہ روحی مہدی نے شرکت کی ۔ پروگرام کا آغاز قاری عبدالکریم ندویؔ نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے کی۔

کلیدی خطبہ میں مشہور صحافی و کالم نگار عالم نقوی نے کہاکہ جمیل مہدی کی صحافت پیشے سے نہیں مشن سے عبارت تھی اور آخری سانس تک وہ اس مشن پر قائم رہے۔ ان کی تحریروں سے ملی اور قومی سیاست کی ایک تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ ایسی تاریخ جس پر صحافت کو بجاطور پر ناز ہوگا۔ عالم نقوی نے کہا کہ ان کی تحریروں کا لوگوں کو انتظار رہتا تھا۔

صدارتی خطاب میں ڈاکٹر مسعودالحسن عثمانی نے جمیل مہدی سے اپنے دیرینہ تعلق اور ان کی صحافتی خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان جیسے بے لوث صحافی ان کے زمانے میں بھی کم تھے اور آج تو اس کا ذکر ہی کیا۔ ممبر اسمبلی عالم بدیع اعطمی نے کہا کہ میں نے ان کی تحریروں کو پوری توجہ سے پڑھا ہے او ر ان کو قریب سے دیکھا بھی ہے۔ ملت اور قوم کے لئے ان کے یہاں درد تھا اور ملی قیادت کے لئے ان کے عزائم بہت بلند تھے۔ میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ حکیم وسیم احمد اعظمی نے اپنی بچپن سے جڑی یادوں کے حوالے گفتگو کی اور کہا کہ وہ مخلص اور بے لوث صحافی تھے۔ چھوٹوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی یہ ادا مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ جمیل مہدی کی بھتیجی افسانہ نگار ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی اس موقع پر اپنے چچا محترم کی بہت سی یادوں کو بیان کیا اور جذباتی انداز میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ انھوں نے کبھی مال و دولت اور جاہ کی پروا نہیں کی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کی جانب سے روبینہ مرتضیٰ کے بدست رخشندہ روحی صاحبہ کو سپاس نامہ اور شال پیش کی گئی۔ رضوان فاروقی نے جمیل مہدی اور مقبول لاری کے حوالے سے مقالہ پیش کیا اور بتایا کہ جمیل مہدی کی تحریروں کو مقبول لاری نے شائع کرکے انھیں زندہ و جاوید کردیا۔ جمیل مہدی کی صحافتی زندگی، ان کا انداز تحریر دونوں کو ان کتابوں کی حوالے سے محسوس کیا جاسکتا ہے جس کی اشاعت کا سبب مقبول احمدلاری صاحب تھے۔ ریسرچ اسکالر حمیرا عالیہ نے جمیل مہدی کے مشہور خاکے ’’ایک ہاتھ کا آدمی‘‘ کا خوبصورت تجزیہ پیش کیا۔ ان کے علاوہ محمد علی منیل، محمد غفران نسیم، محمد اویس سنبھلی، ضیاء اللہ صدیقی ندویؔ، نثار احمد، اطہر حسین وغیرہ نے بھی پُرمغزمقالات پیش کرتے ہوئے جمیل مہدی کے اوصاف وکمالات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے نجب النساء ٹرسٹ کو ان پر پروگرام کا انعقاد کرنے کیلئے مبارکباد پیش کیں۔ پروگرام کے کنوینر نے استقبالیہ پیش کیا۔

اس موقع پر خاص طور سے وجے رائے، فیاض رفعت، شاہ نواز قریشی، حیدر علوی، محسن خاں، پرویز ملک زادہ، عطیہ بی، ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی، ڈاکٹر ثروت تقی، عبیداللہ ناصر، غزال ضیغم، محمد خالد، عبداللہ بخاری،ڈاکٹر رضوانہ، ڈاکٹر نظام الحق، ڈاکٹر نسیم الدین،صبیحہ سلطانہ،نزہتشہاب چشتی، روبینہ مرتضی، پریم کانت تیواری، انصار احمد، ڈاکٹر مسیح الدین خاں، لاری پاکٹ جنتری کے غوث الاعظم لاری،شاہد حبیب وغیرہ خاص طور سے موجود تھے۔