سپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس وکرم سین اور جسٹس شیوا کرتی سنگھ نے ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۵ء ؁ کو ایک سوموٹو جاری کرتے ہوئے حکومت ہند سے جواب طلب کیا کہ کیوں نہ ملک میں یکساں سول کوڈ بنایا جائے؟ جبکہ عام معاملات میں اس طرح کا ایک قانون موجود ہے،جس پر عمل کیا جاتا ہے۔

اخبارات میں اس کی خبر آنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے ذمہ داروں کو حکم دیا کہ سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے جو نوٹس جاری کیا ہے اس کی مخالفت کی جائے ۔

لہٰذا جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی کی طرف سے ۵؍ فروری ۲۰۱۶ء ؁ کو سپریم کورٹ میں اس نوٹس کے تعلق سے مداخلت کار بننے کی درخواسات داخل کی گئی،جسے سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے حکومت ہند کو ۶؍ ہفتہ میں جمعیۃ علماء کی جانب سے داخل کردہ اعتراض کا جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا۔

اسی درمیان محترمہ مس فرحہ فیض نے جمعیۃ علماء کے رٹ کی مخالفت میں ۲۸؍ فروری ۲۰۱۶ء ؁ میں رٹ داخل کی۔ مس فرحہ کے رٹ کے جواب میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے ایک مختصر سا جواب ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۶ء ؁ کو سپریم کورٹ میں داخل کیا اور ۲۸؍ مارچ ۲۰۱۶ء ؁ کو جمعیۃ کی جانب سے مفصل حلفیہ بیان داخل کیا گیا۔

۴؍ مئی ۲۰۱۶ء ؁ کو بدر سید نے بحیثیت مداخلت کار بننے کی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی۔

۲۰؍ مئی ۲۰۱۶ء ؁ کو ذکیہ سومن نے بھی مداخلت کار بننے کی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ۔

۲۶؍ مئی۲۰۱۶ء ؁ کو فرحہ فیض کے اعتراضات کاجواب جمعیۃ علماء (ارشد مدنی) کی جانب سے داخل کیا گیا۔

۲۹؍ مئی ۲۰۱۶ء ؁ کو مسلم خواتین ویلفیئر نامی تنظیم نے جمعیۃ علماء (ارشد مدنی) کی حمایت میں ایک حلفیہ بیان داخل کیا۔

۲؍ ستمبر ۲۰۱۶ء ؁ کو مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے سو مو نوٹس کے خلاف اپنا اعتراض داخل کیا۔

اور گورنمنٹ آف انڈیا نے ۱۵ ؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء ؁ کو حکومت کے نام جاری کئے نوٹس جس میں ۶؍ ہفتہ میں جواب داخل کرنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی تقریباً ۶؍ مہینہ بعد ۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء ؁ کو سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیا۔جس میں حکومت نے تحریر کیا ہے کہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ۳؍ طلاق اور دوسری شادی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔